چل سو چل۔ اکیسویں صدی کی بیسویں سال کاپہلا مہینا بھی آخری ہچکی لے رہا ہے، جس کی تاریخ ہے ستائیس اور دن دوشنبہ کا۔ بین الاقوامی حساب میں یہ ہفتے کا پہلا دن ہے جس کا شگفتہ شگفتہ سویرا ہے۔ سوہنی دھرتی کے طول و  عرض میں پژمردہ خزاں اپنے بے وقت رخصتی کا راگ الاپ رہی ہے۔ بہار اپنی آمد کی منادی میں مگن ہے، اور اپنے آوارہ گردوں کا گینگ ’’عارضی نقلِ مکانی‘‘ کرنے کا نقارہ بجانے میں۔
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے
آس پاس گلوں میں رنگ بھرے سوات سے نکل کر اسلام آباد کے محلِ وقوع میں یوں داخل ہوتے ہیں اور یوں خارج ہوتے ہیں، جیسے چٹکی بجا کر۔ اوپر والے کی مرضی و منشا پر منحصر ہے، جس نے دارالخلافے کا دَرشن اور پروفیسر روشن کے دسترخواں کا نامیاتی راشن آج کے دن ہمارے کھاتے میں نہیں لکھا۔ لیکن کوئی بات نہیں، یہ جس کی ذمہ داری ہے، وہ یہاں نہیں دیتا، تو اوکاڑہ میں دے گا، جو ہمارے سفر کے تین ساتھیوں میں ایک ساتھی، حاضر گل کی اصلی جنم بھومی لگتی ہے، لیکن ہے دراصل اُن کے ’’کھاتے پیتے‘‘ پختون رشتہ داروں کی جنم بھومی۔ اُن کا ایک چین ہے ریسٹورنٹس کا، جو اپنے خصوصی مرغِ مسلم، تکہ کباب اور کڑاھی پر اہلیانِ شہر کو دن بھر دھاوا بولنے کا فراخ دلانہ موقع فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کے آس پاس میں جب بھی ہمارا نزول ہوتا ہے، تو یہ لوگ ریڈ اِلرٹ کرتے ہیں اوکاڑہ کی حدود میں۔ ابھی تو پہلے پہر کے گیارہ بھی نہیں بجے، ہم نے شام تک پہنچنا ہے وہاں۔ وقت کافی ہے، تجویز ہے کہ کچھ دیر کے لیے وادی کلرکہار جایا جائے۔ اپنے چار بندوں کی جنتاکا ہوائی ہوائی خیال تو یہ ہے کہ سارے پنجاب میں مری کے علاوہ اگر کوئی دوسری جگہ دیکھنے کی ہے، تو وہ یہ ہے۔ مسئلہ ہے کہ اِس کے دیدار کے لیے موٹر وے سے اُترنا پڑے گا، لیکن یہ کون سی بڑی بات ہے! ہمارے منھ سے بات ابھی نکلی نہیں، تور دادا نے کار کے بریک پر پاؤں رکھے نہیں، بائیں طرف مڑنے کا انڈیکیٹر دیا نہیں اور ایک دو کلومیٹر چلنے کے بعد ہم اِس خوبصورت وادی میں داخل ہوئے نہیں۔
اسلام آباد سے کوئی ڈیڑھ دوگھنٹے کے فاصلے پر واقع قصبہ کلر کہار، وادیِ سون کا اتنا اہم کاریڈور ہے جتنا اپناگوادر چین کا۔ یہ جھیلوں اور باغات کی سرزمین ہے جہاں کے لوکاٹ اور ناشپاتی پنجاب کے فروٹ منڈیوں میں اپنی خصوصی شاخت رکھتے ہیں۔ یہاں کی نمکین جھیل جو پھیلی تو محض سات آٹھ کلومیٹر رقبے پر ہے، تاہم دور دور تک کے ماحول پر اس کا خمار چھایا ہوتاہے۔ یہ بارش کے پانی سے بھری رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ جھیل مبینہ طور پر پانی کے کئی چشمے بھی اپنی تنگ دامنی میں سموئی ہوئی ہے۔ بابا فرید گنج شکر اور سلطان باہو کی چلہ گاہیں موجود ہیں یہاں۔ لگ بھگ پانچ سو سال ہوتے ہیں جب اپنا مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابُر کابل سے دہلی فتح کرنے کے ’’کریز‘‘ یعنی خبط میں مبتلا وہاں سے نکلا، تو یہاں کی خوبصورتی نے اُسے گم سم کردیا۔ وہ اِدھر اُدھر پھرتا ٹور تا ضرور، لیکن قیام کی خواہش یہاں فرماتا۔ اِس وادی کی خوبصورتی کا بھوت اس کے سر پر اتنا سوار ہوا کہ سخت پتھروں اور چٹان کو تروڑ مروڑ کر اپنے لیے ایک تخت تعمیر کروایا، جس پر کھڑے ہو کر وہ فوجی جوانوں سے خطاب کرتا اور ہدایات دیتا رہتا۔ یہ تاریخ میں مرقوم ہے۔ تاہم تاریخ میں جو بات مرقوم نہیں، وہ یہ ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے ہم نسل در نسل جنگوں کے ایڈیکٹ ہوئے، فی امان اللہ!یہ تخت اب بھی اپنی اصل حالت میں ہے کہ نہیں؟ یہ بات وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ کیوں کہ اس کو اصل حالت میں ہم نے دیکھاکب ہے؟ بابُر نے وقت گزاری کے لیے ایک باغ بھی لگایا، باغِ صفا کے نام سے۔ جہاں ٹہلنے کو کوئی ملکہ عالیہ ساتھ ہوتی تھی کہ نہیں اِس بابت تاریخ مکمل طور پر تاریک ہے۔ ایسی ویسی کوئی بات ہوتی بھی تو مغل شہنشاہ ملکۂ عالیہ کے نام پر تاج محل کے طرز پر نہ سہی کسی ڈاک بنگلہ کے طرز پر ہی سہی، کوئی عمارت کھڑی کرنے کا فٹیک نہ کرتا۔ یاد رہے یہ وہ والا بابُر ہے جو کہتا ہے کہ
نَو روز و نَوبہار و مے و دِلبرے خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
یعنی نَوروز ہے، نَو بہار ہے، شراب ہے خوب صورت محبوب ہے۔ بابر بس عیش کی سعی ہی میں لگا رہ کہ زندگی دوبارہ نہیں آنی۔
اپنی خودنوشت میں وہ تعجب کا اظہار کرکے لکھتاہے کہ یہاں کے لوگ اناج کو اناج کے ساتھ کھاتے ہیں، یعنی روٹی اور دال یک مشت۔ اب ہم سمجھے کہ یہ جو اپنے پنجاب کے بھائیوں کو دال خور کہا جاتا ہے، یہ کہیں بابُر کی اِس بات کا اثر تو نہیں۔ جو بھی ہے یہ جملہ بڑا معترضہ لگتا ہے، شجاعت حسین والی مٹّی پا، بابُر کی دال خوری والی بات پر۔
جھیل کا نظارہ کرنے کو چلتے ہیں۔ آس پاس ریسٹورنٹس میں گہماگہمی ہے جہاں مخلوقِ خدا پیٹ پوجا کے عمل سے گزر رہی ہے۔ جھیل کے اندر رنگ بہ رنگی کشتیوں میں رنگ برنگی تتلیاں بیٹھی اٹھکیلیاں سوجھ رہی ہیں، اور ہم کنارے پر بیزار کھڑے ہیں۔ دوسری طرف مزید خواتین و حضرات جوڑے جوڑیاں ہوائی جھولوں میں جھول جھول کر دامے درمے قدمے سخنے ایک دوسرے پر نچھاور ہونے کو نیچے اُتر تے ہیں اور پھر نچھاور ہونے کو اوپر چڑھتے ہیں۔ یہ سماں دیکھنے کے لیے بڑا دل گردہ اور استقامت کی چاشنی چاہیے۔ یہ جا وہ جا، دور دراز سے آئے ہوئے سکول کالج کے بچے خوش گفتاری میں مگن ہیں۔ ایک موج میلہ ہے، ایک ہل چل ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں انسان ہوتا ہے، وہاں زندگی اُچھلتی کودتی ہے۔ کتناپُر لطف و پُرکیف ہے یہ کلر کہار۔ حیرت ہے کیفیؔ دہلوی نے کلر کہار بارے یہ اشعار کیوں نہیں کہے ، کیفیؔ کہیں کے!
کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا
کہتے ہیں جسے مصر وہ بازار ہے تیرا
تقدیر اسی کی ہے نصیبہ ہے اسی کا
جس آنکھ سے کچھ وعدۂ دیدار ہے تیرا
پہاڑی کی چوٹی پر واقع حضرت ہوباہو کے مزار مبارک پر پورا دن شریف خواتین کے علاوہ شریر حضرات کی آمد ورفت بھی جاری رہتی ہے۔ لنگر بھی چلتا ہے اور وقتاً فوقتاً لائیوصوفیانہ کلام بھی۔ اِس چوٹی پر زیرِتعمیروسیع و عریض مسجد کی عمارت اور مزار معذور، لاچار، اپاہج، بیمار اور بے یارومددگار افراد کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ تھکے ماندے زائرین کا ’’دہ ستڑو زے شہباز گڑہ‘‘ بھی ہے۔ من چاہے تو قوالیاں سنیں، معدہ مروڑ کریں، تو لنگرکا مطالبہ کریں، اور تن تھکا وٹ سے چور ہو جائے، تو کسی کونے میں پاؤں پھیلا ئیں، لیکن اِس کے لیے لازم ہے کہ بیک وقت دَم دَرود کا ڈراما بھی رچائیں، اور بیک وقت داورِ حشر کا شکریہ بھی ادا کریں کہ دورانِ سفر کسی ٹھنڈی چھاواں تلے پاؤں پسارنے کا موقع فراہم کیا۔ چلہ گاہ کے درون میں ہم بھی دُنیا و مافیہا سے قطع تعلق کرکے کچھ دیر کے لیے دماغ کو روحانی حصار میں دے ڈالتے ہیں، واللہ! بڑا سُرور بھرا احساس ہوتا ہے۔ لگتا ہے خدا کا یہ بے بس بندہ خوداپنے گردو پیش سے فرار ی بنناچاہتا ہے۔ یہ خود اپنی ذات میں انجمن بننے کو ترستاہے، تڑپتا ہے، حرام باللہ! لیکن یہ بات چھوڑیں جی، اب وقت فلسفے جھاڑنے کا نہیں، گھومنے پھرنے کا ہے۔ چلہ گاہ سے واپسی پرتختِ بابُری بارے کچھ مزید جاننے کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں، تو پولیس ریسٹ ہاؤس کے قریب گزرنے والی سڑک کے کنارے لگی ایک تختی پر ڈاکٹر لیاقت علی نیازی ڈپٹی کمشنر چکوال کی طرف سے لکھی ہوئی رودادپڑھتے ہیں، چلیں۔ وہ رقم طراز ہے:
’’باغ کے وسط میں پہاڑی کی چٹان تراش کربابُر کی فوج نے ایک تخت بنوایا جس پر کھڑے ہو کر بابُر نے اپنی فوج سے خطاب کیا جو تختِ بابُری کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک بڑی چٹان ہے، اِس میں اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ چٹان کی اوپر والی سطح کو ہموار کیا گیا ہے، جس پر تخت بچھا کر بابُر بادشاہ تشریف رکھا کرتا تھا۔ اس باغ میں مور بھی ہیں جو کھلی فضا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچاتا۔ یہاں پر میٹھے پانی کے علاوہ گندھک آمیز پانی کا چشمہ بھی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر سخی ہو باہو کا روضہ قابلِ دید ہے، تمام مزار کے اوپر شیشے کی کڑھائی ایسی صناعی سے ہوئی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ڈی سی چکوال، 1990۔‘‘
معذرت کہ عقل ڈاکٹر لیاقت علی نیازی کی دنگ رہ گئی ہوگی، ہماری تونہیں ہوئی۔ کیوں کہ تب میں اور اب میں زمین آسمان کا فرق جو ہے۔ آپ لوگ تو ایسے مگن ہوگئے ہیں اِن باتوں میں جیسے پہلی بار کچھ پڑھ سن رہے ہوں یہاں بارے۔ ہم بھی اِسی ڈگر پر چلیں گے، تو یاد رہے کہ بطوطے کے بیٹے نے پون لاکھ میل سفر کیا اٹھائیس سال میں، تب کہیں جاکے اپناسفر نامہ ترتیب دیا، توآپ خود انصاف فرمائیں ، اپنا کیا بنے گا ایسے احوال میں! بس جی اتنے کہے کو بہت سمجھیں ۔ چار تو یہاں ہی بج گئے اور آٹھ بجے تک اوکاڑہ پہنچنا لازمی ہے۔ اما بعد ایک ڈرائیور ہوٹل میں ’’موٹادال‘‘ تناول فرماتے ہیں جو نام کے لحاظ سے شاہی ہے لیکن ذائقے کے لحاظ سے درویش منش۔ چوں کہ بھوک کا اور ذائقے کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ نہیں ہوتا، اس لیے جو بھی ملا، بے ادبی کا دامن پکڑ کرہڑپ کرلیا۔ اَدھورے اَدھورے سے گم سم سے آگے نکلتے ہیں، پیچھے پیچھے دیکھتے ہوئے، واقعی آوارہ گردی کا بول بالا۔
جستجو جس کی تھی اُس کو تو نہ پایا ہم نے
اِس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔