نہ تویہ ہنسی مذاق کا موقع ہے، نہ طعنے دینے کا۔ طالبان امریکہ امن معاہدہ افغانستان کے 3 کروڑ86 لاکھ انسانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح پاکستان، ایران اور تاجکستان سمیت افغانستان کے چھے پڑوسی ممالک اور باقی دنیا افغانستان کی خوشحالی سے لاتعلق رہ سکتی ہے نہ بدحالی سے۔ افغانستان کی خوشی اور غم دونوں کے اثرات سے پڑوسی اور پھر باقی دنیا متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا فغانستان میں امن کی امید ہم سب کے لیے خوشی اور اندیشے بھی ہماری مشترکہ فکر مندی ہونے چاہئیں۔
امن معاہدہ کا کریڈٹ لینے والوں کی قطار خاصی لمبی ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اتنا اہم کام کسی ایک فرد یا جماعت کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اس معاہدہ تک پہنچنے میں بے شمار افراد کی جانی قربانیاں، ذاتی دلچسپی، غور و فکر اور کئی ممالک کا بامعنی تعاؤن شامل ہے۔ اس تعاؤن میں پاکستان کو بے دردی سے موردِ الزام بھی ٹھہرایا گیا، لیکن پاکستان کے بغیر اس معاہدہ تک پہنچنا شائد بہت زیادہ مشکل ہوتا۔
ہم میں سے بہت سے لوگ معاہدہ کو طالبان کی فتح قرار دے کر امریکہ کو عار دلا رہے ہیں، لیکن مؤرخ جب اطمینان سے قلم اٹھائے گا، تو وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کواس کے لا اُبالی امیج کے باوجود جنگ ختم کرکے امن کو موقع دینے والے اولین شخص کے طور پر یاد کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی غرور کی جذباتیت سے بالاتر ہوکر امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے تاریخی قدم اٹھایا۔ یقینا افغانستان میں موجود 13 ہزار امریکی فوجیوں کے والدین اور بچے انہیں ایک ہیرو کے طور پر یاد کریں گے۔
مَیں امریکہ کو ناکامی کا طعنہ دینے والوں کے ساتھ بھی اتفاق نہیں کر سکتا۔ افغانستان میں ایک جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالنے میں امریکی فوجیوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے انتخاب کا عمل کتنے ہی سوالات کی زد میں ہو، جمہوری حکومت کا چوتھا دور شروع ہونا کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ۔
1838ء میں افغانستان پر برطانوی تسلط اور شاہ شجاع کی تخت نشینی سے موجودہ امن معاہدے تک لگ بھگ 100 ایسے معاہدے، انقلابات، شکستیں اور فتوحات تاریخ کا حصہ ہیں کہ ہر واقعہ کے بعد امن اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہونے کی امیدیں باندھی گئیں، لیکن ہر بار افغانستان ایک نئی بدامنی کی دہلیز پر لڑکھڑاتا ہوا پایا گیا ۔
گذشتہ واقعات اور موجودہ واقعہ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ گذشتہ تمام معاہدوں کے بعد بیرونی قوتیں کابل میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے سرگرم ہوجاتی تھیں جب کہ اب کی بار دنیا تھک چکی ہے۔ کسی کو افغانستان کے اندر اپنے اثر و رسوخ میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی کہ افغانستان میں ایک اور جنگ کے برے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کی فکرمندی نظر آرہی ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتاہے کہ دو سو سال میں پہلی بارافغانستان کی قسمت کا فیصلہ خود افغانستان کی قیادت کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر طالبان رہنما، صدر اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ، گل بدین حکمت یار اور دیگر قائدین ایک دوسرے کو زیر کرنے کی نفسیات پر قابو پالیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں باہم لڑانے میں پر مجبور نہیں کرسکتی ۔
افغان قیادت اور عوام، افغانستان امن یا بدامنی دونوں کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ لہٰذا یہ وقت طعنے دینے اور مذاق اڑانے کا نہیں۔ سنجیدگی سے اس عمل کو افغانستان میں امن اور خوشحالی کی منزل تک پہنچانے کے لیے دعاؤں اور عملِ صالح کا وقت ہے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔