(نوٹ: یہ تحریر ڈان اخبار میں چھپی ’’نوین اے منگی‘‘ کی انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے)
’’دو افراد سڑک حادثے میں جاں بحق.‘‘ یہ بارہ اگست کی ڈان اخبار کی ایک چھوٹی سی خبر تھی، جس کے کل الفاظ شاید پچاس سے زیا دہ نہیں ہوں گے۔ شاید ہی مذکورہ خبر کسی کی نظروں سے گزری ہو۔ خبر کے مطابق ایک قصبے( راٹو ڈھیرو، لاڑکانہ سے تیس کلومیٹر جنوب مشرق)میں یہ واقعہ پیش آتا ہے۔ واقعہ میں دو لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔’’ حبدار کلہوڑو‘‘ اور ’’گلزار ہولیو ۔‘‘
اس حادثے کے پس منظر کو واضح کردیتی ہوں۔ جمعے کے دن علی الصبح (گیارہ اگست) دونوں مزدور جوان منھ ہاتھ دھوکے جلدی جلدی اینٹوں کی بھٹی کی طرف نکل پڑے۔ یہ دونوں گلزار کی بہن کے لئے خشک اینٹ لینے گئے جو کہ مدتوں کی منت سماجت کے نتیجے میں راضی ہوئے تھے۔ در اصل اسے بیت الخلا کی تعمیر کے لئے اینٹ چاہیے تھے۔ اپنے بھائی کو چائے پلانا چاہی لیکن اسے لگا حبدار غصہ ہوں گے۔ اسلئے کام مکمل کرنے کے بعد چائے پلانے کا وعدہ کیا۔ وہ کام اور چائے، دونوں کے لئے بہت پرجوش تھی۔

اس حادثے کے پس منظر کو واضح کردیتی ہوں۔ جمعے کے دن علی الصبح (گیارہ اگست) دونوں مزدور جوان منھ ہاتھ دھوکے جلدی جلدی اینٹوں کی بھٹی کی طرف نکل پڑے۔ یہ دونوں گلزار کی بہن کے لئے خشک اینٹ لینے گئے جو کہ مدتوں کی منت سماجت کے نتیجے میں راضی ہوئے تھے۔ در اصل اسے بیت الخلا کی تعمیر کے لئے اینٹ چاہیے تھے۔

اس حادثے کے پس منظر کو واضح کردیتی ہوں۔ جمعے کے دن علی الصبح (گیارہ اگست) دونوں مزدور جوان منھ ہاتھ دھوکے جلدی جلدی اینٹوں کی بھٹی کی طرف نکل پڑے۔ یہ دونوں گلزار کی بہن کے لئے خشک اینٹ لینے گئے جو کہ مدتوں کی منت سماجت کے نتیجے میں راضی ہوئے تھے۔ در اصل اسے بیت الخلا کی تعمیر کے لئے اینٹ چاہیے تھے۔

خیر، دونوں دوست اپنے ٹریکٹر پر سوار ہوئے، گاؤں سے باہر واقع ڈھابے پر چائے پی اور جلد ہی روانگی شروع کی، لیکن جب ٹریکٹر نے چند ہی کلو میٹر کے بعد ساتھ چھوڑدیا، تو انہوں نے ٹریکٹر کی مرمت کے لئے اسے سڑک کی ایک جانب لگالیا۔ ڈرائیور حبدار ٹریکٹر کے نیچے لیٹ کر اس کا معائنہ کرنے لگا جبکہ گلزار اس ٹرالی پر کھڑا تھا، جس میں اس نے اینٹ بھرنا تھے۔ چشم دید گواہ نے بتایا کہ سامان سے لدا ہوا ایک ٹریلر شاہراہ پر تیزی سے جارہاتھا کہ یکا یک سڑک کنارے موجود ٹریکٹر کی جانب آیا۔ تیز رفتار ٹریلر، ٹریکٹر سے ٹکرایا۔ ٹریلر کے شیشے ٹکڑوں میں تبدل ہوگئے جبکہ ٹریکٹر قلابازیاں کھاتا ہوا کئی گز دور جا لگا۔ گلزار جوکہ ٹرالی پر تھا ،کا چہرہ بالکل مسخ ہوا اور موقعہ پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ دوسری جانب خون میں لت پت حبدارہسپتال تو پہنچا لیکن وہاں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ٹریلر کے ڈرائیور کو جائے واردات پر گرفتار کیا گیا۔

اب آپ کو ان دو بندوں کے بارے میں بھی بتا تی ہوں۔ بتیس سالہ جوان گلزار ہولیو جس نے کبھی سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا تھا، پانچ سال کا تھا کہ والد فوت ہوگئے اور اسے وراثت میں زمیندار کی بھینس چرانے کا عمل نصیب ہوا۔ گلزار نے بچپن، لڑکپن اور جوانی سخت مشقت میں گزاری۔ چاولوں کی فصل اُگانے میں تھریشر کے علاوہ مال بردار گاڑیوں کو اینٹوں سے بھرنے اور خالی کرنے جیسے کاموں کا عادی بن گیا تھا۔ گلزار جب روزانہ سرِشام کام سے واپس آتا، تو سراپا کیچڑ ہی کیچڑ ہوتا۔ بالخصوص دھوتی جو کہ ٹخنے پر سے یہاں وہاں جاتی، کیچڑ آلود ہوتی اور گاؤں والے دیکھتے۔ ہاں،جو کچھ کماتا ماں کے ہاتھ تھما دیتا ۔دن بھر کی اجرت محض دو سو پچاس روپے ہی تھی۔ اس کی شادی کو ابھی پانچ مہینے ہی ہوئے تھے اور بیوی امید سے تھی۔

اٹھائیس سالہ حبدار کلہوڑو، صبح سویرے بھینس کے لئے گھاس لے آیا تھا۔ یہ گھر سے نکلنے سے پہلے بہت ہی زیادہ خوش تھا۔ یہ صاحب چار بیٹیوں کے والد اور اولادِ نرینہ کا مشتاق تھا۔ وجہ یہ تھی کہ پہلے سے وہ تین لڑکوں کو کھو بیٹھا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ آنے والی مہمان پانچویں بیٹی ہے، تووہ اسے رضائے الٰہی جان کر خوش ہوا اور خود کو تسلی دی ۔
حبدار کا والد گدھا گاڑی چلا کر روزی روٹی کما لیتا تھا۔ بیٹے نے بھی پرائمری اسکول چھوڑ کر مختلف جگہوں پر کام کیا۔ جہاں کہیں عمارتی کام دیکھا بلاجھجک کرنے کو دوڑا۔سکھر میں کھجوروں کی شجر کاری (بالخصوص گرمیوں میں) اور فصل کی کٹائی میں گھر والوں کی مدد کو غنیمت جانا، جس دن کام نہ ملتا تو اینٹوں کی لوڈنگ کرتا۔اسے نے ٹریکٹرکی ڈرائیونگ بھی سیکھ لی تھی۔ وہ کہاکرتا کہ جب اس کی دو سالہ بیٹی اس کے سینے پر سوجاتی ہے، تو اس کے سارے دن کی تھکان دور ہوجاتی ہے۔

مقامی عمائدین اور پنچائت نے فیصلہ کیا کہ مجرم دونوں خاندانوں کو سات سات لاکھ خون بہا کے طور پرادا کرے گا۔ ساتھ ہی مجرم کا خاندان جنازے، تکفین و تدفین اور فاتحہ خوانی سے لے کرآخری رسومات میں پوری طرح شامل رہا۔گاؤ ں والو ں نے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا اوراتنے لوگ جمع ہوگئے کہ انکے کچے مکانوں کے نزدیک تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اس دن کوئی بھی آنکھ خشک حالت میں گھر نہیں لوٹی ۔

مقامی عمائدین اور پنچائت نے فیصلہ کیا کہ مجرم دونوں خاندانوں کو سات سات لاکھ خون بہا کے طور پرادا کرے گا۔ ساتھ ہی مجرم کا خاندان جنازے، تکفین و تدفین اور فاتحہ خوانی سے لے کرآخری رسومات میں پوری طرح شامل رہا۔

مقامی عمائدین اور پنچائت نے فیصلہ کیا کہ مجرم دونوں خاندانوں کو سات سات لاکھ خون بہا کے طور پرادا کرے گا۔ ساتھ ہی مجرم کا خاندان جنازے، تکفین و تدفین اور فاتحہ خوانی سے لے کرآخری رسومات میں پوری طرح شامل رہا۔

یہ ہمارے لئے ایک عام سی خبر تھی: ’’دو افراد سڑک حادثے میں جاں بحق۔‘‘ لیکن ان چند الفاظ کے پیچھے کسی کو کیا خبر کہ درجنوں لوگوں کے دل اور ان کے ارمان کرچی کرچی ہوگئے۔ گلزار کی بہن ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے ہوئے خود کو کوستی رہتی ہے اور رہے گی کہ اس نے بھائی کو کیونکر بھیجا؟ بیوی خود کو ملامت کرتی اور اذیت دیتی ہے کہ وہ اپنی آنے والی مہمان کو کیا جواب دے گی؟ اور ماں، ماں تو غم سے نڈھال ایک کونے میں دب کے رہ گئی۔

حبدار کی بیوی کی پشیمانی یہ تھی کہ اس نے اپنے شوہر کو جانے سے کیوں نہ روکا۔ حالاں کہ اس کو پتا تھا کہ اس دن صبح کو وہ کتنی خوش تھی۔ بچوں کو تو غم نے کھوکھلا اور خاموش کر دیا ہے۔ دوسالہ بیٹی بھی سمجھدار ہو کر زمین پر سو رہی ہے۔ شور و غل سے بھرپور پڑوس گویا قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ گویا گاؤں، ہوا، درخت اور دیواریں سب کے سب ماتم کناں ہوں ۔