پوٹھوہار میں جیسے ہی مرد کابچہ دنیا میں اپنے درشن کراتا ہے، تو دستور کے مطابق والدین کی خوشی اتنی دیدنی نہیں ہوتی جتنی دوسری سٹیک ہولڈر یعنی فوج کی ہوتی ہے۔ خدا خیر کرے، پورا نام لینے میں کہیں خطا نہ ہوجائے، ورنہ ہم کس کھیت کی مولی کس ہیں؟ مختصر نام پر اکتفا کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل کیانی صاحب اِس ’’سپاہ خیز خطہ‘‘ کے سپوت ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ وہ آئینی ترامیم کی افادیت سے نتھنوں نتھنوں مستفید ہوئے بغیر پویلین واپس لوٹ گئے ہیں۔ ویسے اگر قومی مفاد میں وہ بھی شدید ضرورت محسوس کرتے ہیں فوج میں واپس جانے کو، تو آئین میں ریٹائرڈ جرنیلوں کی باعزت واپسی کے لیے پارلیمنٹ کے اراکین کو اسلام آباد پہنچانا، توایک دقیقے کا کام ہے۔ بس ایک سیٹھی بجانے کی دیر ہے اور فوری طور پر اُن کے اسلام آباد پہنچنے کی اور انگوٹھا لگانے کی دیر ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے!
بات پوٹھوہار کی کر رہے تھے کہ دھیان خواہ مخواہ کیانی صاحب کی کہانی میں اُلجھ گیا۔ پوٹھوہار کی بات ہو اور اُن کی نہ ہو، تو یہ تو واضح واضح بددیانتی ہے۔ ظہر کا وقت اور کلرکہار کا ریسٹ ایریا بیک وقت آیا ہی چاہتے ہیں۔ گاڑی کو پارکنگ میں کھڑی کرتے ہیں۔ ایسی پارکنگ جس کے اوپرسولر پینل رکھ کر چھت کا کام بھی لیا جاتا ہے، جو آس پاس علاقے کو راتوں میں روشنی سے منور کریں اور دن کو گاڑیوں کے لئے سایہ فراہم کریں۔ واش روم میں گھس جاتے ہیں اور بڑے قرینے سے وضو کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ریسٹ رومز میں ایگزاسٹ فین چل رہے ہیں۔ ٹوائلٹ پیپرز کے رول کے رول اپنی مخصوص جگہوں پر لگے ہوئے ہیں۔ گرم ٹھنڈے پانی کا باافراط انتظام ہے۔ فرش کو دَم بہ دَم برش سے صاف کیا جاتا ہے۔کموڈز کی صفائی وقتاً فوقتاً ہورہی ہوتی ہے۔ تیزاب اور بلیچ اور دیگر جراثیم کش ادویہ کا باقاعدہ استعمال ہوتا ہے۔ صفائی کرنے والے ملازم اپنے ساز و سامان سمیت چاق و چوبند کھڑے رہتے ہیں۔ کوئی فارغ ہو کر وہاں سے نکلا نہیں اور صفائی کرنے والے نے گھس کر کموڈ میں پھر سے پانی پھینکا نہیں۔ یہاں کے واش رومز میں چارپائی رکھنے کا رواج تونہیں، پرآپ سے کیا پردہ، مسافر کو اِس کے فرش پر لیٹ کر بھی آرام فرمانے کا موڈ بن جاتا ہے، لیکن ساتھی سے ڈر لگتا ہے۔موٹر ویز پر اپنے پختون علاقوں کے واش رومز بھی دیکھے ہیں۔ وہاں گندگی کا قبضہ تو ایک طرف رکھیں، الجھن یہ ہے کہ یہ پختون جب جب سانس کے دخول و خروج کے مرتکب ہوتے ہیں، تو فوری طور پر دوڑ کر ریسٹ روم پر دھاوا بول لیتے ہیں۔ بے فکر ی سے سچ مُچ کا ریسٹ کرنے کموڈ پر بیٹھ جاتے ہیں، اور باہر لوگ لائنوں میں انتظار کرکے سوکھ جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ ہمارے پی ایم عمران خان بجا طور پر لیٹرین سیکٹر میں اصلاحات کا کوئی اچھوتا پیکیج لانچ کرنے اور کوئی ایپ متعارف کر نے کے متمنی ہیں۔ اِ س بابت اُن کے لیے ہماری ایک بہترین تجویز ہے مفت کی، اور وہ یہ کہ ریسٹ رومز بنانے اور اُس کے مناسب استعمال پر دماغ کھپانے اور پیسہ لگانے کی بجائے لوگوں کو بڑے پیمانے پر بڑے ’’پیمپرز‘‘ کی مفت فراہمی پر سوچیں۔ چھوٹے بچوں کی طرح بڑے بڑوں کو بھی اِس کے پہننے کا ایڈیکٹ کیا جائے، اور جہانگیر خان ترین اورپرویز خان خٹک کو اِن پیمپرز کی فراہمی کا ٹھیکا دلا نے کا جائزہ لیا جائے، تو ایسا کرنے سے آسانیاں الگ پیداہوں گی اور آسامیاں الگ۔ اپنے نابغہ روزگار دوستوں کو خوش کرنے کے بہترین ذرائع الگ اور، اور، اور آرگینک فارمنگ کے لیے زرخیز مواد کی یقینی فراہمی کا پکا پکا ذریعہ الگ۔ اور تو اور پانی کے استعمال میں 90 فیصد تک بچت بھی اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے برجستہ مواقع بھی ہاتھ آئیں گے۔ فوائد تو ا س تجویز کے متعدد ہیں لیکن ہم نے کوئی ٹھیکا نہیں لیا ہوا کہ حکمرانوں کو مفت میں تجاویز دیتے پھریں۔ ہاں، مشیروں اور مشاورتوں کا دوردورہ ہے۔ ہمیں کوئی مل جائے، تو ’’پیمپرز‘‘ کی بات کو پھر آگے بڑھائیں گے۔ لگ گئے ہیں گنجلک موضوع پر بے جا و یک طرفہ بحث میں۔ ہم اور ساتھی نے نماز پڑھ کر مسجد سے واک آوٹ بھی کیا اتنی دیر میں۔ جلدی میں خواتین مسجد میں گھس جاتی ہیں اور ابھی نماز پڑھنے کھڑی ہوئی نہیں کہ دیوار پر تنبیہ لکھی دیکھتے ہیں: ’’خواتین مسجد‘‘۔ بڑے بے سروسامانی کے عالم میں وہاں سے زندہ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں، اور فوری طور پر مردانہ مسجد میں رونما ہوجاتے ہیں۔ نماز سفرانہ ہو، تو اُس کی ادائیگی کے لیے بڑے بے چین بے چین سے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اِس میں جسمانی ورزش کم اور روحانی وابستگی زیادہ ہوتی ہے۔ نیکیوں کی گٹھڑی بھاری اور ثواب کی ’’گریویٹی‘‘ گہری ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سفرانہ نماز کوالیفائی کرنے کے لیے 80 کلومیٹر تک کے سفر کو بھی نا جائز نہیں سمجھتے ۔ بادی النظر میں مسافری چار دن سے زیادہ بھی کرنا پڑے، تو ایسے اِرادے کی سوچ قطعاً ذہن میں ڈالتے نہیں، تاکہ رعایت کا یہ پیکیج اَویل کرنے کے حق سے خود ہی اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑا مار کرخود کو محروم نہ کروں، غلطی سے۔
نماز ادا کرنے کے دوران میں اپنی صورت کو بہت معصوم صورت بنا نے کا فن ہم بچپن سے جانتے ہیں، جیسے داورِ حشر کی دید یہاں تک محدود ہو اور اِس سے آگے واگے کچھ نہ ہو، استغفراللہ! نماز پڑھتے ہوئے سورۂ فاتحہ سے آغاز کرتے ہیں، تو اِس سورت کی جامعیت پر سوچ کر انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے۔ تمام سورتوں میں سورۃ فاتحہ، تسبیحات سے بھرپور ہے۔ اس کو قرآنِ پاک کا مقدمہ، تمہید اور خلاصہ کہا گیا ہے۔ فاتحہ کامطلب ہے آغاز، افتتاح یا بنیاد۔ ترتیب کے لحاظ سے یہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی پہلی سورت ہے جو مکی دور میں نازل ہوئی اور واحد سورت ہے جس کی ابتدا بسم اللہ سے نہیں ہوتی۔ گویا یہ ایک ایسی سورت ہے جو کسی اضافی سپورٹ کی محتاج نہیں۔ اس کی آیات کی تعدد سات ہے، جس میں خدا کی ذات پر یقینِ مستحکم رکھنے کا وعدہ بھی ہے، حمد و ثنا بھی ہے اور تعریف وتوصیف بھی۔ حرفِ تمنا بھی ہے، عاجزی بھی اور سیدھے راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرنے کی دُعا بھی۔ نماز کے علاوہ ویسے بھی اس کا ذکر کرنا بہت زیادہ افضل ہے۔ اِفادیت کی بات ہو، یا نصیحت کی، تو وہ اِرشاد فرما دیتے ہیں، عمل کی بات ہو تو وہ ہے آپ کا کام۔ ساتھی کے فیورٹ ٹی ہاؤس میں کچھ اول فول اور کچھ کافی کھا پینے کی پاداش میں ہزار کا نوٹ ادا کرکے بڑی آسانی سے جان چھڑاتے ہیں۔ کمال ہے بڑی ارزانی ہے یہاں کے ریسٹورنٹس میں۔ روٹین کے مطابق جب بھی قیام و طعام کے اِس ایریا سے نکلنے کا موڈ بنتا ہے، تو یہاں پر موجود زیتون کے اُن تین چار درجن پودوں کے ساتھ سلام دُعا ضرور کرتے ہیں۔ یہ پودے 2010, 11ء میں لگائے گئے تھے۔
اِس دفعہ اِن درختوں سے زمین پر گرے ہوئے پھل اور بیج دیکھ کر بڑا دُکھ ہوا۔ یہ لوگ کیا جانیں زیتون کے پھل کے کرامات و عجائبات۔ یہاں کی انتظامیہ کو کئی دفعہ سمجھایا بھی، لیکن ’’نو نقد نہ تیرہ اُدھار‘‘ والے اِس ماحول میں اُدھار ے کے سودوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔