وائس آف امریکہ کی پشتو سروس (ڈیوہ) نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ "facebook” کے اپنے صفحہ ’’وی او اے ڈیوہ‘‘ پر ایک تصویر شائع کی ہے، جس میں ایک متشرع عام سا مگر بارُعب شخص دکھائی دے رہا ہے۔ وہ پچاس کے پیٹے میں دکھائی دیتا ہے۔ پشتون روایات کے مطابق سر پر عمامہ، واسکٹ پہنے اور بائیں کاندھے پر سفید چادر رکھے، موصوف شان سے کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ ساتھ ہی ایک پیاری اور معصوم سی پشتون بچی بھی کھڑی ہے، سر پر چادر تانے، چہرے سے معصومیت ٹپکتی اور لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ لیے ہوئے۔
وائس آف امریکہ کی انتظامیہ نے مذکورہ تصویر کے ساتھ ایک پوسٹ تیار کرکے شائع کی ہے جس نے اس عام سی تصویر کی اہمیت کئی گنا بڑھا دی ہے۔ پوسٹ چوں کہ پشتو زبان میں دی گئی ہے، اس لیے یہاں اس کا اُردو ترجمہ ملاحظہ ہو:
پوسٹ کی ہیڈنگ ہے: ’’بیٹی کی تعلیم کے لیے پکتیا کے میا خان کا منفرد کارنامہ!‘‘
’’افغانستان کے صوبہ پکتیا کے مرکزی شہر خرنی کے رہائشی میا خان روزانہ اپنی بیٹی کو موٹر سائیکل پر سوار کرکے 12 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور بچی کو سکول تک پہنچاتے ہیں۔ میا خان، بچی کو سکول میں چھوڑنے کے بعد چھٹی تک انتظار کرتے ہیں اور واپس اپنی بیٹی کو گھر لے آیا کرتے ہیں۔ سماجی رابطہ کی تمام ویب سائٹس پر میا خان کی یہ تصویر ہزاروں صارفین نے شیئر کی ہے اور تعلیم نسواں کی مد میں اس عمل کو بے حد سراہا ہے۔‘‘

بچی اپنی دیگر ہم جماعت سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی سبق بڑھ رہی ہے۔ (فوٹو: وائس آف امریکہ)

مجھے مذکورہ تصویر دیکھنے کے بعد امیتابھ بچن کی مشہور فلم کا وہ شہرہ ٔآفاق مکالمہ یا د آیا کہ ’’مونچھیں ہوں، تو نتھو لال جی جیسی، ورنہ نہ ہوں۔‘‘ اُسے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یہاں رقم کرنے کی جسارت کروں گا کہ ’’والد ہو، تو میاخان جیسا، ورنہ نہ ہو!”

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔