عجب دل ہے، شہر میں ہوتا ہے، تو گاؤں کے لیے تڑپتا ہے۔ خاموش اور تر و تازہ آب و ہوا کے قصیدے پڑھتا ہے۔ پرندوں کی باتیں یاد آتی ہیں۔ نغمہ ریز ندیوں کے خواب بنتا ہے۔ حدِ اُفق تک پھیلے ہوئے کھیت ذہن میں گھومتے رہتے ہیں۔ پہاڑی ڈھلانوں پر ہوا سے سرگوشیوں میں مصروف جنگل تخیل کی دنیا کو خوف و اسرار سے بھر دیتے ہیں۔ بیوی بچوں کی قربت کے لیے مر مر جاتے ہے۔ قہقہوں کے عین درمیان سسکنے لگتا ہے۔ مجھے اپنے گھر لے چلو۔ یہ بلند بانگ عمارتیں مجھے زہر لگتی ہیں۔ ان کشادہ رو سڑکوں سے میرا دم گھٹ رہا ہے اور جب شہر سے گاؤں آجاتا ہے، تو یہاں کی سست رفتاری اور شب و روز کی یکسانیت سے فوراً بور ہوجاتا ہے۔ دوستوں کے قہقہے، ان کی ہزار رنگ باتیں یاد آتی ہیں، ذہنی ہم آہنگی کی جو فراوانی شہر میں پھیلی ہوئی تھی، اس کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔ گاؤں کی آب و ہوا جسمانی صحت و طراوت کے لیے تو بے حد مفید ہے، لیکن دماغ کو اپنے روز و شب کے ٹائم ٹیبل پر نظرِ ثانی کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے یہ پھر شہر کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ اسے وہ رَت جگے یاد آتے ہیں، جن سے بدن مضمحل ہوگیا تھا۔ مجھے اپنے جیسے لوگ چاہئیں، جو زندگی کی گتھیاں کھولنے میں مگن ہوں اور اس سخت کام میں لطف ڈھونڈتے ہوں۔ میں ان لوگوں میں زندہ نہیں رہ سکتا، جن کی ساری دوڑ دھوپ کھانے پینے کی چیزیں، زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کے لیے ہیں، مجھے کچھ اور چاہیے کچھ اور۔
دل کی یہ ضد اسے شہر کے باسیوں میں سے ایک بنا دیتی ہے، جو کہیں بھی پہنچ کر کچھ بھی حاصل کرکے مطمئن نہیں ہوتے۔ لاحاصل کی جست جو انھیں کبھی چین نہیں لینے دیتی۔ دوسروں کے گھر انھیں ہمیشہ زیادہ کشادہ نظر آتے ہیں۔ دوسروں کے عہدے انھیں چین نہیں لینے دیتے۔ دوسروں کی گاڑیاں دیکھ کر انھیں اپنی گاڑیاں بے وقعت نظر آتی ہیں۔ دوسروں کی تنخواہیں، بیویاں انھیں حسد کی آگ کا ایندھن بنائے رکھتی ہیں۔ شہر نام ہے ناآسودگی کا، ہر قسم کی نا آسودگی۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زیرو ہونے کا احساس، اسی وجہ سے شہر میں ہر گھڑی ایک حشر بپا رہتا ہے۔ لوگ دوڑ رہے ہیں۔ بھاگ رہے ہیں۔ چیخ رہے ہیں۔ گالیاں دے رہے ہیں۔ مار رہے ہیں۔ مرر ہے ہیں۔ انھیں وہ کچھ چاہیے، جو دوسروں کے پاس ہے۔ ان کے اپنے پاس جو کچھ ہے، وہ بہت کم ہے۔ بے معنی ہے۔ ذرا سامنے والوں کو دیکھ۔ گھر کے ہر فرد کے پاس نئے ماڈل کی گاڑی ہے۔ ہزاروں روپے تو لان کی گھاس کو ہرا رکھنے پر خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس تولے دے کے صرف دو گاڑیاں ہیں اور یہ گھر ٹھیک ہے، خاصا بڑا ہے لیکن ان جیسا تو نہیں۔ بچے بھی ہمارے سارے یہیں پڑھ رہے ہیں۔ امریکہ بھیجنے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں؟ اب اس حال میں کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے، جس محلے میں چلے جاؤ۔ وہاں یہی سرگوشیاں گردش میں ہیں۔ لوگ کسی نہ کسی طرح قِطار توڑنے میں لگے ہوئے ہیں، چاہے اس کے لیے انھیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ حرام، حلال، جائز، ناجائز کا خیال اُٹھ چکا ہے۔ بات صرف ہشیاری اور عیاری کی ہے، قابل تقلید وہ لوگ ہیں، جو بہت تیز ہیں۔ اس لیے شہر میں ہر چیز کی رفتار بہت تیز ہے۔ لگتا ہے کوئی ہے جو منھ میں سیٹی رکھے ہوئے ہے اور سب کو اور تیز بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے مسلسل سیٹی بجا رہا ہے۔
’’عجب دل ہے!‘‘ جو وہاں شہر میں رہتے ہوئے اس شور اور تیز رفتاری سے تھک چلا تھا، اور اب گاؤں آکر اسی ہنگامہ کے لیے بے چین ہے۔ اس خوف ناک سیٹی کی آواز سننے کے لیے بے قابو ہو رہا ہے۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔