زندگی بے چین ہے دنیا سے جانے کے لیے
یہ تو اسکا دل بڑھاتے ہیں پرندے اور درخت
درخت اور پرندے اس بات کا مسلسل اظہار ہے کہ زندگی اور مٹی کا رشتہ برقرار ہے۔ ایمرسن نے اپنے ایک خوب صورت مضمون میں ایک ایسی دنیا کا نقشہ پیش کیا ہے، جہاں ستارے موجود نہ ہوں یا ہر پچھتر (75) سال بعد نظر آتے ہوں۔ اگر ایسا ہو، تو یقینا ستاروں کا کسی بھی انسان کی زندگی میں نکلنا ایک ایسا حسین واقعہ ہوتا کہ نہ صرف وہ خود بلکہ اس کی نسلیں بھی اس پر فخر کرتی نظر آتیں، لوک داستانوں اور عوامی شاعری میں اس کا ذکر ہوتا۔ لوگ مہینوں سے اُس تاریخی رات کا انتظار کرتے، جب ستارے نکلنے والے ہوتے۔
اسی طرح میں سوچتا ہوں، اگر پرندے اور درخت ہماری بدسلوکی سے تنگ آکر ہمیشہ کے لیے یا کسی خاص مدت کے لیے زمین سے رخصت ہو جائیں، تو ہمارا کیا حال ہو، ایسی زمین کا تصور ہر دل کو دہشت سے بھر دیتا ہے۔ جہاں پرندوں کے گیت کوچ کرگئے ہوں، جہاں درختوں کا والہانہ رقص نظر نہ آئے۔
گنگناتے سرخ نغمے، لہلہاتے سبز رنگ
خاک سے کیا کیا اٹھاتے ہیں پرندے اور درخت
اس تصویر میں کتناسارا رنگ اور خوب صورتی محض ان کی موجودگی سے ہے۔ جہاں بھی ان دونوں کی آبادی زیادہ ہو۔ وہاں کے لوگ فخر و غرور کا تاج پہنے دوسروں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور اپنے علاقے کو ارضیٔ جنت قرار دیتے ہیں اور جہاں ان کی رہائش کا تناسب کم ہو، اس علاقہ کو ویر ان بیابان کہا جاتا ہے اور بنجر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ بانجھ ہونے کی گالی دی جاتی ہے ۔
لیکن آدمی کتنا مورکھ اور عقل کا اندھا ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی دونوں سے دشمنوں جیسا برتاؤ روا رکھتا ہے۔ پرندوں کو چن چن کر نوالہ بنایا جا رہا ہے۔ کتنے سحر تاثیر گیت پیٹ کا ایندھن بن گئے۔ درختوں کو روزانہ قتل کیا جارہا ہے۔ کلہاڑیاں ڈھل رہی ہیں۔ برقی آرے بھی میدان میں آگئے ہیں، ایسا لگتا ہے، جیسے زمین کو کسی بڑی آفت سے بچانے کے لیے عالمی پیمانے پر کوئی مہم چلائی جارہی ہو۔ روزانہ کالج آتے جاتے بڑے بڑے ٹرکوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ جو درختوں کی لاشیں ڈھونے میں مصروف ہیں۔ ان کی روزی اسی سے بندھی ہوئی ہے۔ لاشوں کے بیوپاری شائد اس بات سے پوری طرح واقف نہیں کہ وہ جانے انجانے کس مکروہ کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ بے خبر ہیں کہ وہ اپنے آنے والے دنوں کے سر سے چادر کھینچ رہے ہیں۔ اپنے حال کو بدحالی کے اندھے کنویں میں دھکیل رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اختیار و اقتدار کے رخش بگولہ رفتار پر سوار ہیں۔ وہ اس قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے کہ درختوں کی بستیوں کی بستیاں رات دن تہ تیغ ہورہی ہیں تاکہ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں محلات بنانے والے لوگوں کے گھروں میں لکڑی کا بے مثال کام کیا جاسکے۔ کچن کیبینٹس، کھڑکیاں، دروازے، چکر دار سیڑھیاں اور پتہ نہیں اور کیا کیا بنے گا۔ یہ ٹرک اس دشوار گزار سڑک پر ان لاشوں کے بے پناہ بوجھ تلے فریاد کناں ہیں یا ممکن ہے انھیں بھی اس زیادتی کا احساس ہوگیا ہو اور میری طرح انھیں بھی زندہ درختوں سے محبت ہو اور اس ناپاک دھندے میں شریک ہونے کا انھیں افسوس ہو۔
مجھے اپنی ہی نظم کا ایک حصہ یاد آرہا ہے شاید کسی ذمے داری کو بھی اسی طرح سوچنے کا روگ لگ جائے۔
درختوں سے محبت نے میری دنیا بدل ڈالی
جہاں جاتا ہوں اب تنہا نہیں ہوتا
یہ میرے ساتھ ہوتے ہیں
میں ہنستا ہوں تو ہنستے ہیں
میں روتا ہوں تو روتے ہیں
سداخود دھوپ میں جلتے ہیں میرے سر پہ سائے تان دیتے ہیں
مری راحت کی خاطر جان دیتے ہیں
کبھی روتی ہوا کی داستان پر آہیں بھرتے ہیں
کبھی یہ آندھیوں سے جنگ کی زندہ مثالیں پیش کرتے ہیں
کبھی ہفتوں کھڑے بارش کی باتیں سنتے رہتے ہیں
کبھی سورج کا سینہ تان کر ہر ظلم سہتے ہیں
بہار آئے تو رنگا رنگ آنچل اوڑھ لیتے ہیں
خزاں آئے تو اپنے تن کے کپڑے بیچ دیتے ہیں

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔