قارئین کرام! عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ایک پرانی نظریاتی پارٹی ہے۔ یہ اپنے سیاسی سفر میں مختلف ناموں اور حوالوں سے ایک طویل دشوار گزار راستوں سے چلی آ رہی ہے۔ یہ مرحوم خان عبدالغفار خان (باچا خان) کے نسب اور سیاسی وراثت کی امین ہے۔ اپنی مخصوص سیاسی اور قومی نظریات کے حوالے سے اُنہیں مختلف بدنامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی قائیدین کو ہندوستانی، روسی اور افغانی ایجنٹ کے الزامات کے داغ سہنے پڑے۔ حالاں کہ بات صرف اتنی تھی کہ مرحوم باچا خان نے انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑی، اور 1947ء کے بعد پاکستان میں باچا خان اور اُس کے سیاسی وارثوں نے جمہوریت، آئین و قانون اور قوموں کے حقِ خود اختیاری کی جدوجہد کو دوام بخشا۔ اس طویل جد و جہد میں جیلوں اور گولیوں تک کا سامنا کیا۔ روس، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات کی بات کی۔ کیوں کہ اُن کا مؤقف تھا کہ پڑوسی تبدیل نہیں ہوسکتے۔ عدم تشدد کے فلسفے کے داعی بن کر ہمیشہ امن وامان کا درس دیا۔ جمہوری روایات کو بر قرار رکھا، اور دوسری تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جمہوری رواداری کے راستے پر چلے۔ پڑوسی ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کار بند رہے۔ ایک آزاد اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی کی حمایت کی۔ پروپیگنڈوں اور جھوٹ کو ایک طرف کرکے کبھی ملکی استحکام اور خود مختاری کا سودا نہیں کیا۔ ہاں، پختونوں کے سیاسی، معاشی، سماجی اور ذرائع آمدن کے لیے جمہوری و آئینی جدوجہد کی۔
قارئین، اے این پی کے کارکن روزِ اول سے دفاعی جنگ لڑتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے راہنماؤں کے ساتھ ساتھ عام کارکن کی جمہوری آزادی کی جد و جہد میں لازوال قربانیاں ہیں۔ مالی و بدنی قربانی کے علاوہ پارٹی اور ملکی مفاد کے لیے یہ قیمتی جانوں کے نذرانے بھی پیش کرچکے ہیں۔ پارٹی کے نیک اور اعلیٰ مقاصد کی خاطر اور امن و امان کے لیے پورے خیبر پختونخوا کی سرزمین کو اپنے لہو سے لالہ زار کرچکے ہیں۔ پارٹی کے سیکڑوں بلکہ ہزاروں کارکن دہشت گرد حملوں، خودکش دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔
بلاشبہ کسی بھی پارٹی کے لیے مخلص اور بے لوث کارکن قیمتی اثاثہ ہیں۔ وہ نظریاتی کارکن جو بکتے ہیں نہ جھکتے ہیں اور نہ ڈرتے ہی ہیں۔ انہی ارکان پر پارٹی کی اساس اور بنیادیں قائم و دائم رہتی ہیں۔ انہی قربانیوں اور بے لوث خدمات کے طفیل کبھی کبھی پارٹی کے بنیادی ارکان کے ناز نخروں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان کی چھوٹی بڑی غلطیوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ ان قیمتی اثاثوں اور سرمایوں کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہیے۔ ان کی مثال بیش قیمت ہیروں کے ہار کی سی ہے۔ اگر ہار ٹوٹ جائے، تو بکھرے ہوئے موتیوں کو ڈھونڈ کر دوبارہ پرونا چاہیے۔ پارٹی باچا خان کی سیاسی وراثت پر اگر فخر کرتی ہے، تو پھر اسے نبھانا بھی چاہیے۔ باچا خان سے کوئی ساتھی ناراض نہ ہوا اور اگر ہوا بھی، تو اُسے منانے میں فخرِ افغان نے کبھی عار محسوس نہیں کی۔
قارئین کرام! اس کالم کا مقصد یہ ہے کہ حال ہی میں پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت کی طرف سے کچھ نظریاتی بنیادی ارکان کے خلاف انتظامی ایکشن لیا گیا ہے، اور انہیں بیک جنبش قلم پارٹی کی بنیادی رکنیت سے فارغ کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی قیادت نے اُن کی اپیلیں بھی مسترد کردی ہیں۔ محترم سابق نائب صدر لطیف آفریدی، عمران آفریدی، ایاز وزیر، بشریٰ گوہر اور افراسیاب خٹک کی بھی کچھ غلطیاں ہوں گی، لیکن ان لوگوں نے پارٹی کے لیے ایک عمر خرچ کی ہے۔ ماضی میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے۔ لہٰذا ان بے لوث اور مخلص ارکان کے لیے نرم گوشہ رکھنا چاہیے اور نرم پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔
حال ہی میں یہ بات خوش آئند ہے کہ پارٹی کی نئی نوجوان قیادت اس حوالے سے سرگرم ہوچکی ہے۔ پورے خیبر پختونخوا کے دورے ہورہے ہیں اور ناراض ارکان سے رابطے بحال ہورہے ہیں۔ مجھے موجودہ نوجوان اور مخلص قیادت سے یہ اُمید ہے کہ وہ اُن تمام بنیادی اور نظریاتی بے لوث ارکان سے از سرنو رابطے کریں اور اگر کچھ اختلاف یا تحفظات ہیں، تو باہم گفت و شنید سے حل کریں۔ ضروری امر یہ ہے کہ یہ پرانے ارکان صرف اکیلے نہیں بلکہ پارٹی کے اندر اُن کا ایک حلقہ نیابت بھی ہے اور اُن لوگوں پر اس وقت مایوسی، نا اُمیدی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ وہ کنفیوژن کا شکار ہیں۔ یہ کنفیوژن کی حالت ختم کرنا ضروری ہے۔ نئی قیادت سے مجھے اُمید ہے کہ وہ وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لطیف لالا اور سب کو گلے لگائے گی اور ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔ کیوں کہ ان سب کا اب اور کوئی راستہ نہیں۔ ایک عمر گزارنے کے بعد اب ایک نئے سیاسی راستے کی تلاش اور اُس پر سیاسی سفر کا آغاز کرنا، کم از کم اس عمر میں اگر ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ ایک نئے سرے سے صفر سے آغاز کرنا ایک دوسرے کو سمجھنا اور نئے لوگوں کے ساتھ اعتماد اور بھروسے کی بحالی لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔
مَیں ان سطور کے ذریعے لطیف لالا سمیت تمام پرانے مخلص کارکنوں سے استدعا کروں گا کہ وہ بھی پارٹی ڈسپلن کا خیال رکھیں، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے، تو نیچے تک پارٹی ڈسپلن خراب ہوجائے گی۔ مَیں ایک پرانے نظریاتی اور ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے سب سے اتفاق و اتحاد کی اپیل کروں گا۔ روا داری، صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف بڑھنے، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے میں پہل کریں۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔