ایک شاگرد نے اُستاد کے عالمی دِن کے موقعہ پر اپنے اُستاد کو پیغام بھیجا کہ اُستاد جی میں آج جو بھی ہوں آپ کی وجہ سے ہوں۔ اُستاد نے جواب بھیجا کہ ’’کیوں ہمیں بدنام کرہے ہو، ہم نے تو اپنی پوری پوری کوشش کی تھی۔‘‘
اُستاد کے عالمی دِن کے موقعہ پر یہ لطیفہ سوشل میڈیا پر بہت گردش کر رہا تھا۔ اِس سے مجھے اپنی ایک کہانی یاد آئی۔ مَیں جب ساتویں جماعت میں پاس ہوا، تو آٹھویں کے لیے دوسرے سکول جانا پڑا۔ وہاں ایک دِن ہمارے اُستاد کی غیر حاضری پر نچلی کلاسوں کے ایک اُستاد کلاس لینے ہماری کلاس آئے۔ اُنہوں نے بیالوجی کی کتاب سے کچھ سوالات کیے۔ میرے حصے میں وہاں سے سوال آیا جو ہم نے ابھی نہیں پڑھا تھا۔ مَیں جواب نہ دے سکا۔ ہمارے کسی دوست نے میرے بارے میں کہا کہ یہ اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن لے کر یہاں آیا ہے۔ اُستاد نے میرا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ ’’شائد یہ کلاس میں اکیلا تھا، اس لیے پہلی پوزیشن لی ہوگی۔‘‘ اِس کے سا تھ اُس نے ایک کہانی بھی سُنائی، جس کا یہاں ذکر مناسب نہیں، لیکن اُس کا مقصد بھی یہی تھا کہ میں پوزیشن لینے کے لائق نہیں تھا، لیکن شائد طلبہ کی کمی یا کسی اور وجہ سے نمایاں رہا ۔
قارئین، اِس بات کو ہوئے گیارہ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن یہ اب بھی میرے ذہن میں اُسی طرح تازہ ہے۔ کیوں کہ میرے خیال میں کوئی بھی ایسی بات بھول جانا آسان نہیں ہوتا، جس میں آپ کا مذاق اُڑایا گیا ہو یا بے عزتی کی گئی ہو۔ اگر یہ کام ایک اُستاد کی طرف سے ہو، تو پھر تو بھولنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
یہاں بات میری ذات سے زیادہ اُستاد کے رویے کی ہے۔ کیوں کہ اگر اساتذہ اسی طرح طلبہ کا مذاق اُڑا کر اُن کی حوصلہ شکنی کرتے رہیں گے، تو ہم کسی اور سے کیا گلہ کریں گے۔ جس طرح میں نے پچھلی تحریر میں کہا تھا کہ تمام کمزوریوں کے باوجود والدین کو اپنے بچے کو قبول کرنا اور سمجھنا چاہیے۔ اُسی طرح اساتذہ کا بھی یہ فرض ہے کہ ہر صورت میں اپنے طلبہ کو قبول کرنا اور سمجھنا چاہیے۔ ان کی کمزوریوں کی صورت میں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہاں یہ بات رقم کرنا بھی ضروری ہے کہ ذہین طلبہ سے زیادہ کمزور طلبہ کو وقت اور توانائی دینی چاہیے۔ کیوں کہ اُن کو نسبتاً زیادہ وقت اور توانائی درکار ہوتی ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ حضرتِ علیؓ نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک بھی لفظ سکھایا، تو اُس نے مجھے اپنا غلام بنا دیا۔‘‘ اِس سے زیادہ اُستاد کی اہمیت پر اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اُستاد بادشاہ نہیں ہوتا، لیکن بادشاہ بناتا ہے۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ اُستاد کا شعبہ اور مرتبہ انتہائی عزت اور احترام کے لائق ہے۔ ہر کسی کو اپنے اُستاد کی عزت کرنی چاہیے۔
قارئین! یہاں جس بات کا ذکر میں کرنا چاہتا ہوں، اور ضروری بھی سمجھتا ہوں، وہ یہ کہ اُستاد کی حیثیت زیادہ تر شاگردوں کی نظر میں ایک مثالی شخصیت کی ہوتی ہے۔ اور اکثر اوقات وہ اُستاد کی ہر بات اور ہر کام کو صحیح سمجھ کر اُس کی تقلید کر رہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی وہ خطرناک موڑ ہے جس کو اُستاد اور شاگرد کے رشتے کا سب سے خطرناک موڑ کہا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شاگرد کی سوچ خود ایسی نہ ہو کہ وہ تحقیق کرے اور ہر بات کو سوالیہ انداز سے دیکھے، تو وہ اُستاد کی بات اور کام کو صحیح سمجھ کر اُس کی تقلید کرسکتا ہے، اور یہ ایک خطرناک عمل ہے۔
برسبیل تذکرہ، میرا خود ایک ایسے اُستاد واسطہ پڑا ہے جو کہ مذہبی ذہنیت رکھتے تھے۔ مذہبی ذہنیت رکھنے میں کوئی قباحت نہیں اور یہ بندے کا اپنا ذاتی معاملہ ہے، لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوجاتا ہے جب بندہ ہر چیز کو اپنے زاویے سے دیکھ رہا ہو، اور ہر بات کا مطلب مذہب کی رو سے تلاش کرہا ہو۔ مطلوبہ اُستاد جب ہمیں ’’مسلم نفسیات‘‘ نامی مضمون پڑھاتے تھے، تو کہتے تھے کہ آج تک آپ نے جتنی بھی نفسیات پڑھی ہے، وہ بھول جائیں۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ یہ کتنا خطرناک عمل ہے کہ آپ اپنے شاگردوں سے کہیں کہ آپ باقی ماندہ سارے مضامین بھول جائیں اور صرف ایک مضمون پر توجہ دیں۔ اس سے شاگردوں کے ذہن میں سائنس اور سائنسی علوم کی اہمیت ہی ختم ہوجاتی ہے، اور وہ مذہب کو ہی سب کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت خطرناک عمل ہے۔ کیوں کہ یہاں مذہب اور سائنس کو لڑایا جاتا ہے۔
مَیں نے اپنے ایک اور اُستاد کے بارے میں سنا ہے کہ وہ دوسرے شعبوں کے طلبہ کو پڑھاتے ہوئے نفسیات کے باپ سمجھے جانے والے سیگمنڈ فرائڈ کے بارے میں بہت غلط بیانی کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ فرائیڈ ایک لادین اور خدا پر یقین نہ رکھنے والے تھے، اور موصوف ایک کھرے مسلمان تھے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ اپنے ہی شعبے کے باپ تسلیم کیے جانے والے شخص کے بارے میں ایک اُستاد سے ایسی باتیں سننے کے بعد طلبہ کے ذہنوں ہر کتنا برا اثر پڑتا ہوگا۔
اگر اُستاد بادشاہ بناتا ہے، اور سارے کامیاب لوگوں کی کامیابی کا کریڈٹ کسی نہ کسی صورت میں اُستاد کو دیا جاتا ہے، تو کسی کی ناکامی کی صورت میں بھی دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ اُستاد ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں، جہاں اُستاد کی وجہ سے طالب علم غلط راستے پر چَل پڑے ہوں، اور بہت خطرناک نتائج کا سامنا کرچکے ہوں۔
قارئین، میری اصل گذارش یہ تھی کہ والدین کو اپنے بچوں کی ایسی رہنمائی کرنی چاہیے کہ بِلاشبہ اُستاد ایک قابلِ احترام شخصیت ہے، لیکن اُستاد کبھی بھی عقلِ کُل نہیں ہے۔ اس لیے اُستاد کی ہر بات اور ہر کام کو صحیح سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا ایک خطرناک فعل ہے اور بہت سارے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ کسی بھی بات اور کام کو سمجھنے کے لیے اُس کو سوالیہ انداز سے دیکھنا چاہیے۔ اور اگر ممکن ہو، تو اپنے والدین یا دوسرے بڑے سے اُس کے بارے میں رہنمائی حاصل کریں۔
ہمیں بچوں کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ اُستاد بھی ہماری طرح کا ایک انسان ہے۔ اور انسان چوں کہ خطا کا پُتلا ہے، اس لیے اُستاد سے بھی کسی بھی معاملے میں خطا کی اُتنی ہے گنجائش ہے، جتنی ایک عام انسان سے ہے۔ اس لیے کسی بھی صورت ہر اُستاد کو، ہر وقت ایک مثالی شخصیت تصور کرنا مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
اساتذہ کا بھی یہی فرض ہے کہ اپنے شعبے اور مقام کی حیثیت کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اپنے ذاتی پسند و ناپسند، ترجیحات اور نظریات کو بالائے طاق رکھ کر طالب علموں کے ذہن کو علم کی روشنی سے منور کریں، اور اُنہیں سوال کرنے اور ہر چیز کو تنقیدی نظر سے پرکھنے پر اُبھاریں۔ ایسا کرنے سے ہی طالب علموں میں تحقیق کرنے کی صلاحیت اُبھرے گی، اور وہ ایک روبوٹ بننے کی بجائے ملک اور معاشرے کے لیے کچھ کرنے والی شخصیت کے حامل انسان بنیں گے۔
اساتذہ کو یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ اُن کا کام طالب علموں کو اُن کا مطلوبہ نصاب پڑھانا ہے، نہ کہ اپنے ذاتی نظریات۔ کیوں کہ اپنی ذات کو شاگردوں کے اوپر اثر انداز کرنا ایک خطرناک عمل ہے، اور کسی بھی خراب نتائج کی صورت میں اُستاد برابر کا مجرم تصور ہوگا۔
اُستاد شاگردوں کو نصاب سے بالاتر کچھ بھی سکھا سکتا ہے، اس کی کوئی قید نہیں، لیکن یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ وہ اُستاد کے ذاتی ترجیحات اور نظریات پر مبنی نہ ہو، بلکہ تحقیق اور سچائی پر مبنی ہو۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔