بوڑھے شاہین کے ساتھ دو آپشنوں میں پہلا، وہ خاموشی سے موت کے سامنے سرِتسلیم خم کر دے اور زندگی سے رخصتی لے کراپنی موت آپ مر جائے۔ دوسرا، پانچ چھے ماہ کی مشقت کرکے پھر سے جوان ہو جائے۔ جو شکست تسلیم کرتا ہے، وہ سستی کی وادی میں آہستہ آہستہ موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ جب کہ حالات کا مقابلہ کرنے والا بہادری کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ بہ زورِ بازو سنگلاخ پہاڑوں میں نکل جاتا ہے۔ اپنی چونچ کو پتھروں پہ مار مار کر توڑ دیتا ہے۔ یہ توڑ پھوڑ نئی چونچ نکلنے کی شروعات تک ہوتی ہے۔ نئی چونچ جیسے ہی نکلتی ہے اُس سے وہ اپنے پست ناخن کاٹ پھینکتا ہے، تونئے ناخن بننے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چونچ اور ناخن کے ذریعے وہ اپنے پروں کاایک ایک بال اُکھاڑ دیتا ہے، اور اپنے وجود کو لہو لہان کر دیتا ہے۔ اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف سے گزرنا ہوتا ہے، جس کے بعد وہ پھر سے اُڑان بھرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اِس اُڑان سے جو مزہ اور جو لطف اُسے حاصل ہوتا ہے، وہ خود ہی محسوس کر سکتا ہے کوئی اور نہیں۔ ایسے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو، جیسے وہ پھرسے پیدا ہوا ہو۔ اس طرح وہ تیس سال تک مزید زندہ رہ پاتا ہے۔
عقاب کی زندگی کی تگ ودو کا یہ عمل ایک سبق ہے ہم سب کے لیے۔ بہتراور باوقار زندگی گزارنے کے لیے بسا اوقات زندگی میں سختی کو برداشت کرنا بڑا ضروری ہوتا ہے۔ گو کہ اس کو بدلنے کے لیے سخت جد و جہد کیوں نہ کرنی پڑے۔ کیوں نہ ہم بھی شکست کے آگے سرِخم تسلیم کرنے کی بجائے شکست کے ساتھ لڑنا سیکھیں!
بوڑھے عقاب کے دوسرے جنم کا یہ سارا عمل ذہن کے تہہ خانے میں فلم کی ریل کی طرح ہمارے خیالوں میں دوڑتا ہے۔ ’’آپریشن تھیٹر بے‘‘ میں بیٹھے بیٹھے ہم خود سے پوچھتے ہیں، کوئی پرندہ زندگی میں ہار تسلیم نہیں کرتا، تو انسان کیوں کرے؟ ہم بھی ہتھیارڈالنے کی بجائے بوڑھے عقاب کی طرح اپنی ٹیڑھی کمر، ضعیف جسم اور خستہ حال گلے کی دوبارہ آباد کاری کیوں نہ کریں! ہمارے پورے جسم میں سنسنی خیز سی ایک کیفیت دوڑجاتی ہے، جیسے بجلی کی لہر۔ عقاب کی عزم و ہمت کی کہانی ہمارے ایمان میں پختگی اور عقیدے میں ہیجان بپا کردیتی ہے۔ ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کا ’’کاریڈور‘‘ ہے ، ہم ہیں اور انتظار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گیارہ بجے صبح دیکھیں اور نمازِعصر کی اذان ہونے کا وقت پہنچتے دیکھیں۔ ہم کبھی کھڑے ہو تے ہیں، کبھی بیٹھتے ہیں، کبھی لنگڑاتے ہیں، کبھی اندرنی ہلچل کا نظارہ کرتے ہیں، کبھی دروازے میں جھانکتے ہوئے باہر کے لوگوں کی بے چینی کا منظر دیکھتے ہیں۔ ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے؟ یہ خیال ذہن سے کھرچنے کے لیے ہم عقاب کے پَر کترنے والے عمل کو فکر کے لاوے میں جھونک دیتے ہیں، اور فیض کے یہ اشعار سٹریچر سے براہِ راست دو چاردوستوں کو ٹیکسٹ کرتے ہیں:
تو اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رقصاں ہے
دامن ِشوق کو پھیلا کے چلا جاؤں گا
اک نظر دور سے دیکھوں گا در و بام تیرے
دیدہ ٔ شوق کو تڑپا کے چلا جاؤں گا
محبتیں تقسیم کرنے والے، قابلِ احترام و ہمدرد ہستی فضلِ رازق شہاب صاحب فوری جواب یوں دیتے ہیں:
ایسا کہنا نہ مرے یار،چلے جانامت
تم تو لاکھوں کے ہو دلدار،چلے جانا مت
ابھی کچھ اور ہمیں وقت پہ ہنس لینے دو
مسکرانے دو سرِ دار چلے، جانا مت
راہی صاحب دیارِ غیر سے اس وقوعہ پر درد و الم میں لتھڑا ہوا ایک بھر پورخط واٹس اَپ کرتے ہیں اور اس محرومی کا خیال ذہن سے کھرچنے کے لیے لکھ پڑھ کی جانب زیادہ توجہ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ افضل شاہ باچا مسکراتے ہوئے ہمارے کان میں یوں سرگوشی کرتے ہیں: ’’خان جی،سچ بولنے میں کیا حرج، باتیں تو پہلے بھی بہت کی ہے تم نے۔ اُس سے کیا حاصل سوائے منکر نکیر کے رجسٹر بھروانے کے۔ اب کچھ وقفہ بھی کر لو اور ہمیں موقعہ دو بات کرنے کا۔‘‘ طالع مند خان ویلیو ایڈیشن کرتے ہیں: ’’بولنے والے اربوں میں ہیں، اس دنیا میں اور لکھنے والے ہزاروں میں، تم تو کروڑوں میں ایک بننے جا رہے ہو۔‘‘ اپنے پیارے نازک مزاج اوربے چین دوست پروفیسر محمد روشن تسلی دیتے ہوئے ٹیکسٹ میسج بھیجتے ہیں: ’’شاید اِس واسطے اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ صلاحیت چھیننے کا فیصلہ کیا ہو کہ بولنے کی بجائے لکھنے پڑھنے کی طرف بھرپور توجہ دو۔‘‘ امجد علی سحابؔ اپنے مخصوص انداز میں ایک درد بھرا کالم لکھ کر اخبار میں چھاپتے ہیں اور دِل کا دُکھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر وارث خان یوں دل جوئی فرماتے ہیں: ’’دا سوک چی خبرے کئی دا سہ بُس بادئی مڑہ۔‘‘ وادئی شانگلہ کے افتخار باچا منھ دوسری طرف موڑکرکہتے ہیں: ’’خان جی، تم پلکیں ہی جھپکاتے رہو، ہمیں یہ بھی منظور ہے، بس زندہ رہو۔‘‘ ضیاء الدین یوسف زئی بڑا صدمہ محسوس کرتے ہیں، جب اُنہیں ہماری اس کیفیت کا علم ہوتا ہے۔ متعدد دوست و احباب اپنے اپنے انداز میں ہماری تسلی کی جھولی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ لوگوں کی محبتوں کا پتا اب چلا بھئی! ہم ویسے سوچ رہے تھے کہ نہ دُنیا میں کسی کے ہونے سے فرق پڑتا ہے اورنہ نا ہونے سے ، لیکن یہ بڑی بے منطق سوچ ہے۔ شرار صاحب بسا اوقاتِ قدرت کی سازش کی بات کرتے ہیں۔ چلیں، ہم بھی یہ عمل قدرت کی ایک سازش سمجھ لیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ کبھی ہم اِس خوبی سے آشنا بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ ’’بعض اوقات بعض بندوں کو سزا کے طور پر چپ رہنے کو کہا جاتا ہے کہ اُس نے کسی بات میں بے ادبی کی ہوتی ہے۔‘‘ ’’تصوف کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں ایک حکیم کا قول پڑھا: ’’انسان کو ایک زبان، دو کان اور دو آنکھیں اس لیے دی گئی ہیں کہ وہ کلام کرنے کے مقابلہ میں زیادہ سنے اور زیادہ دیکھے۔‘‘ شائد ہم پہلے ہی اُسی ناپ تول سے کچھ زیادہ بول گئے ہیں اوراب سُننے او دیکھنے کے معاملات میں اپنی پے رول پر ہیں۔
بات ہو رہی تھی ’’آپریشن تھیٹربے‘‘ میں انتظار کے کٹھن لمحات کی اوربیچ میں خواہ مخواہ پٹڑی سے اترگئے۔ خدا خدا کرکے کوئی چھے بجے شام سٹریچر پر لوڈ کر عین آپریشن کے لیے مخصوص جگہ پرہمارے جان دارجسم کواَن لوڈ کیا جاتا ہے۔ہم نے اِن ’’بے گناہ آنکھوں‘‘ سے دیکھا کہ جس بیڈ پر ہمیں لادا جاتا ہے، وہاں دو اطراف میں ڈاکٹرز اور اُن کے اسسٹنٹ اپنے چھری کانٹوں سمیت ہمارا تیا پانچا کرنے تیار بیٹھے ہیں۔ اِن آنکھوں نے مزید دیکھا کہ پلاسٹک کے پائپ، تار اور بوتلیں اِدھراُدھر لٹک رہی ہیں۔اِن کانوں نے سنا کہ مدھم مدھم سی سرگوشیاں ہیں۔ چلتے پھرتے سٹریچرزاوردیگرمشینوں کا ہلکا ہلکا شور ہے۔ ان نتھنوں نے چہار سُوادویہ کی بو سونگھی۔ ڈاکٹرز بیک وقت ہمارے ساتھ بات بھی کرتے ہیں اور آپریشن کے عمل کی شروعات بھی کرتے ہیں۔ وہ کلائی پر باندھے ہوئے ربن کا جائزہ لیتے ہیں۔ گلے کا قالب ماپتے ہیں۔ کینولا کے ذریعے کئی ادویہ میرے جسم میں پاس کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہمارا دل بہلانے اورسوچ بدلنے کے لیے کئی سوالات بھی پوچھتے ہیں: ’’آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے؟‘‘فضل صاحب کام بھی کوئی کرتے ہیں یا صرف باتیں کرتے رہتے ہیں؟ جب ٹھیک ہو جائیں گے، تو ہمیں سوات بلائیں گے کیا؟ وعلیٰ ہذاالقیاس۔ وہ سوالات کر رہے ہیں۔ ہم دل ہی دل میں مسکراتے ہیں۔ اِن کو کیا پتا کہ ان سرگرمیوں سے ہمیں خوف نہیں آتا، اب تو یہی جگہیں اپنا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ اس دوران میں اوپر لٹکا ایک ماسک دھیرے دھیرے نیچے آ کرعین ناک کے روبرو’’مقیم‘‘ ہو جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے گہری سانس لو، لمبی سانس لو۔ ہم جیسے ہی لمبی سانس لیتے ہیں، ویسے ہی دنیا و مافیہا کے غموں سے باقاعدہ طو پر بے غم وبے نیاز ہوجاتے ہیں۔ جسم اورروح کا ربط ٹوٹ جاتا ہے اوراس کے بعد چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی ۔
زندگی تو ہی مختصر ہو جا
شبِ غم مختصر نہیں ہوتی
(جاری ہے)

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔