’’ڈیئر ناسا، میرا نام جیک ڈیوس ہے اور میں پلانیٹری پروٹیکشن آفیسر کی ملازمت کے لیے درخواست دینا چاہتا ہوں۔ مَیں 9 سال کا ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ مَیں اس ملازمت کے لیے موزوں ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میری بہن کہتی ہے کہ میں ایک ’’ایلین‘‘ ہوں۔ مَیں خلا اور خلائی مخلوق پر بنی تمام فلمیں دیکھ چکا ہوں، اور خلائی مخلوق سے متعلق فلم ’’مین ان بلیک‘‘ دیکھ کر اپنی معلومات میں مزید اضافہ کروں گا۔ مَیں ویڈیو گیمز میں ماہر ہوں۔ مَیں نوجوان بھی ہوں، اور خلائی مخلوق کی طرح سوچنا سیکھ سکتا ہوں۔‘‘
جیک ڈیوس کی اس درخواست پر بات کرنے سے پہلے براہِ کرم آپ دوسری کہانی ملاحظہ فرمائیں۔
22 اکتوبر 2008ء کو بھارت نے چاند پر اپنا پہلا مشن ’’چندریان وَن‘‘ روانہ کیا جو 8 نومبر کو چاند کے مدار میں چاند کی سطح سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہوا تھا۔ اس نے کامیابی کے ساتھ چاند کی سطح کی تصاویر بھیجی تھیں۔ بھارت کے پہلے چاند مشن نے بھارت کے خلائی تحقیق کو نئی قوت بخشی اور اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے اسی زمانے میں ’’چندریان ٹُو مشن‘‘ کی منظوری دی تھی۔ چاند پر پہنچنے کے لیے بھارت کا خلائی مشن چندریان ٹُو رواں سال 22 جولائی کو سری ہری کوٹا سے روانہ کیا گیا۔ ستمبر کے پہلے ہفتے جب خلائی مشن اپنے اہداف حاصل کرنے کے قریب ہو رہا تھا، تو دنیا کے کروڑوں لوگ بھارت کے اس خلائی مشن کے لائیو نشریات دیکھ رہے تھے، اور توقع کر رہے تھے کہ آج انڈیا کا یہ خلائی مشن رات ڈیڑھ بجے سے ڈھائی بجے کے درمیان چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ کرے گا، لیکن لینڈنگ سے چند لمحے قبل اس خلائی مشن کا زمین سے رابطہ منقطع ہوگیا اور یوں ہندوستان سمیت پوری دنیا کے سائنسی حلقوں میں مایوسی چھاگئی۔ بھارت کا یہ خلائی مشن بظاہر تو ناکام ہوا لیکن یہ کتنا ناکام ہوا اور کتنا کامیاب؟ یہ سراسر ایک سائنسی نکتہ ہے، جس پر ایک غیر جانب دار سائنسی ماہر ہی بات کرسکتا ہے۔ بہرحال آپ ازراہِ تفنن تیسری کہانی ملاحظہ کیجیے۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی حاضر ہو کر نوکری کا خواست گار ہوا۔ بادشاہ نے اس کی قابلیت دریافت کی، تو اس نے بتایا کہ مَیں معاملہ فہم ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ معاملہ فہم لوگ تو دربار میں موجود ہیں، لیکن میرے خاص اصطبل کا مسؤل فوت ہوچکا ہے۔ آپ فی الحال وہاں پر اپنی خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بادشاہ نے اپنے سب سے عزیز گھوڑے کے بارے میں اس اجنبی سے دریافت کیا، تو اس نے بتایا کہ حضور یہ گھوڑا نسلی نہیں ہے۔ بادشاہ نے وہ گھوڑا بڑا مہنگا خریدا تھا۔ چناں چہ بادشاہ نے اس شخص کو حاضر کرنے کا حکم صادر کیا۔ جب وہ شخص حاضر ہوا، تو بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تم نے مجھے یہ گھوڑا اصیل اور نسلی کہہ کر بیچا تھا، لیکن یہ تو نسلی نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت گھوڑا ہے، تو نسلی لیکن پیدائش کے وقت اس کی ماں مر گئی تھی، چناں چہ یہ گھوڑا ایک گائے کا دودھ پی کر اسی کے زیرِ سایہ پلا بڑھا ہے۔ بچپن اس نے گائے کے ساتھ ہی گزارا ہے۔ اب بادشاہ نے اسے رخصت کرکے اس اجنبی کو بلا کر پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ گھوڑا جب گھاس کھاتا ہے، تو سر نیچے کرکے گائیوں کی طرح کھاتا ہے، جب کہ نسلی گھوڑے گھاس منھ میں لے اور سر اٹھا کر کھاتے ہیں۔ بادشاہ اس کی فراصت سے متاثر ہوا اور بہت خوش ہوا۔ اس کے گھر اناج، گھی،بھنے ہوئے دنبے اور پرندوں کا گوشت بطورِ انعام بھجوا دیا اور اس کو ترقی دے کر اپنی بیگم کے محل میں تعینات کردیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بادشاہ نے اس اجنبی سے اپنی بیگم کے بارے میں رائے مانگی، تو اس نے جواب دیا کہ حضور اس کے طور اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، لیکن ملکہ کسی بادشاہ کی بیٹی نہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ کیوں کہ اس کی بیوی ایک بادشاہ کی بیٹی تھی۔ بادشاہ نے اپنے حواس درست کیے اور اپنی ساس کو بلا کر معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ بادشاہ کی ساس نے کہا کہ معاملہ یوں ہے کہ تمہارے باپ نے میرے میاں سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی اس کا رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ کی عمر میں فوت ہو گئی۔ چناں چہ تمہاری بادشاہت سے رشتہ قائم کرنے کے واسطے ہم نے اس بچی کو اپنی بیٹی بنا کر اس کی پرورش کرکے تمہارے ساتھ اس کی شادی کردی۔ اب بادشاہ نے اس اجنبی کو بلا کر پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا چلا کہ میری بیوی شہزادی نہیں؟ اس نے کہا کہ حضرت، ملکہ کا سلوک خادموں کے ساتھ ٹھیک نہیں اور شاہی لوگ اس طرح نہیں کیا کرتے۔ بادشاہ اس اجنبی کی فراست سے مزید متاثر ہوا۔ بہت سا اناج اور بھیڑ بکریاں بطورِ انعام اس کو دیں اور ترقی دے کر اسے اپنے دربار میں تعینات کردیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بادشاہ نے اس اجنبی سے اپنے بارے میں دریافت کیا۔ اجنبی نے کہا، اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ جب بادشاہ نے جان کی امان کا وعدہ کیا، تب اجنبی نے کہا کہ حضور آپ ہیں تو بادشاہ، لیکن نہ تو آپ کسی بادشاہ کے بیٹے ہیں، اور نہ آپ کی چال چلن بادشاہوں جیسی ہے۔ یہ سننا تھا کہ بادشاہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور سر پر آسمان بھی ٹوٹ پڑا۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے وہ اپنی ماں کے محل پہنچا۔ پوچھنے پر اس کی ماں نے بتایا کہ ہاں تم کسی بادشاہ کے نہیں بلکہ ایک چرواہے کے بیٹے ہو۔ بادشاہ نے اس اجنبی سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا چلا کہ مَیں بادشاہ کا بیٹا نہیں ہوں۔ اجنبی نے کہا کہ بادشاہ جب کسی کو انعام دیا کرتے ہیں، تو ہیرے جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں، لیکن آپ جب بھی کسی کو انعام سے نوازتے ہیں، تو بھیڑ بکریاں اور کھانے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں۔ یہ اسلوب کسی بادشاہ کے بیٹے کا نہیں بلکہ کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہوسکتا ہے ۔
عزیزانِ من، چلیں ہم بھی یہ گتھی سلجھاتے ہیں کہ ان تینوں کہانیوں کا آپس میں ربط کیا ہے؟ 3 اگست 2017ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا کو ایک درخواست موصول ہوتی ہے جس میں 9 سالہ جیک ڈیوس اپنی عمر سے کئی گنا بڑے منصب پر کام کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہے۔ ناسا اس بچے کے جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے جواب میں ایک آفیشل لیٹر ارسال کرتا ہے جس میں اس کے بلند عزائم پر داد دینے کے ساتھ بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ ناسا اس کے بھیجے ہوئے خط کو وائرل کرکے جیک کو چند لمحوں میں سوشل میڈیا سٹار بنادیتا ہے۔ رشک تو اس پر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں تو صرف ’’پیچھے دیکھو، پیچھے!‘‘ کہنے سے بچہ سٹار بن جایا کرتا ہے۔ دوسری طرف دنیا اتنی سائنسی ہے کہ جہاں سٹار بننے کے لیے سپیس کا محافظ بننے پڑتا ہے۔ اس سائنسی دنیا سے رنگ پکڑتے ہوئے بھارت نے بھی خلائی دوڑ میں حصہ لیا، لیکن ہم میں پھر بھی غیرت نہیں جاگی۔ ہم نے گھاس کھا کر ایٹم بم تو بنا لیا، لیکن نہ جانے اور کتنے سالوں تک ہم گھاس کھانے پر اکتفا کریں گے؟ ہم میں یہ غیرت کب آئے گی کہ اپنی معیشت کو پروان چڑھا کر ان کے برابر ہوجائیں۔ ہم ان سے سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں ہیں؟ اس پر سوچنے کے بجائے ہم ان کے ’’چندریان ٹُو‘‘ مشن کی ناکامی پر خوش ہو رہے ہیں۔ ہمارے وفاقی وزرا تک ٹوئٹر پر انڈیا کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ ان وزرا سے میری گذارش ہے کہ آپ بے شک انڈیا کا تمسخر اڑائیں، لیکن 5 ستمبر کے جاری کردہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جو 11 فی صد مہنگائی بڑھی ہے، ازراہِ کرم اس پر بھی تھوڑی سنجیدگی دکھائیں۔
عزیزانِ من، تیسری کہانی کے اُس اجنبی سے اگر آج ملکی حالات کے بارے میں پوچھا جائے، تو وہ کہے گا کہ جس طرح اس نسلی گھوڑے نے گائے سے اثر لیا تھا، ہمارے ملک کی پولیس نے بھی کہیں اور سے اثر لے کر اپنے شہریوں کو قتل کر کے انہیں مجرم ڈکلیئر کرنا شروع کر دیا ہے۔
کہانی کے اس اجنبی سے اگر پوچھا جائے، تو وہ کہے گا کہ اس ملک کی وزارتوں کے قلم دان جن وزرا کے پاس ہیں، وہ سب ان وزارتوں کے لیے نا اہل ہیں۔ اگر وہ اہل ہوتے، تو وزیراعظم آفس سے 27 وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری نہ ہوتے۔ آپ ایک ایک کر کے سب وزارتوں کا جائزہ لیں، آپ کو ہر وزیر نا اہل نظر آئے گا۔ مثلاً آپ وزارتِ خارجہ کے دفتر کی کارکردگی دیکھیں، آج کشمیر کے مسئلے پر سوائے چین کے اور کوئی بھی ملک ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا۔ کیا یہ وزارت خارجہ کی نااہلی نہیں؟
کہانی کے اُس اجنبی سے اگر پوچھا جائے، تو وہ کہے گا کہ جس طرح بادشاہ نسلی بادشاہ نہیں تھا اسی طرح ہمارا وزیراعظم جمہوری وزیراعظم نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر وزیراعظم جمہوری ہوتا، تو اسے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ڈالے گئے 280 ارب روپے کے ڈاکے کی سمجھ ہوتی، اور وہ ٹی وی سے آگاہ نہ ہوتا۔ سابقہ حکومتوں نے 10 سالوں میں ملک کا قرضہ 6 ہزار ارب سے بڑھا کر 30 ہزار ارب روپے تک پہنچایا تھا، جسے عمران خان نے صرف ایک سال کے عرصے میں 40 ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بیوروکریٹس وزیراعظم کے احکامات نہیں مان رہے، اور وزارتیں عملاً مفلوج ہوچکی ہیں۔ ایک سال میں مزید ایک لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اگر یہ تماشا اسی طرح چلتا رہا، تو آگے کیا ہوگا؟ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔