پاکستان کا شمار اُن خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے، جو قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ مثلاً کوئلے کے ذخائر کے حوالے سے پاکستان، چین اور امریکہ کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، جہاں پر پوری دنیا کے انیس فیصد کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ قدرتی گیس کے حوالے سے پاکستان دنیا میں تیسویں نمبر پر ہے۔ شیل آئل کے ذخائر میں پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈیک کے مقام پر سونے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کا دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ موجود ہے، جس کی مالیت سات سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موجود قیمتی پتھروں کی مالیت بھی اربوں ڈالروں میں ہے، جبکہ کھیوڑا کے مقام پر موجود نمک کی کان دنیا کی دوسری بڑی کان ہے۔

پاکستان کوئلے کے ذخائر کے حوالے سے چین اور امریکہ کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، جہاں پر پوری دنیا کے انیس فیصد کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔

پاکستان کوئلے کے ذخائر کے حوالے سے چین اور امریکہ کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، جہاں پر پوری دنیا کے انیس فیصد کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔

اس طرح اگر زرعی پیداوار کے حوالہ سے دیکھا جائے، تو پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ آم کی پیداوار میں چوتھے، پیاز کی پیداوار میں آٹھویں، چاول کی پیداوار میں تیرہویں، گندم کی پیداوار میں آٹھویں، کھجور کی پیداوار میں پانچویں، گنے کی پیداوار میں بھی پانچویں جبکہ کینو اور خوبانی کی پیداوار میں پوری دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس طرح دودھ کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں چوتھی پوزیشن پر ہے، لیکن اتنے وسائل کے باوجود بھی پاکستان کی معیشت کا یہ حال ہے کہ یہ ایک مقروض ملک ہے، جس کا بیرونی قرضہ تہتر ارب ڈالر ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا دسمبر بجٹ کا خسارہ چوبیس فیصد یعنی سات سو ننانوے ارب روپے رہا۔ ساٹھ ملین پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزاررہے ہیں، جو کہ آبادی کا تقریباً انتیس فیصد ہے۔ بھوک کے شکار ممالک میں پاکستان گیارہویں نمبر پر ہے، جہاں بائیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ سب سے کم خوشحال ممالک کی فہرست میں بھی پاکستان کا نمبر گیارہواں ہے جبکہ بیروزگاری کا حال یہ ہے کہ اس وقت اسّی لاکھ سے بھی زیادہ پاکستانی بیرونی ممالک میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔

پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ آم کی پیداوار میں چوتھے، پیاز کی پیداوار میں آٹھویں، چاول کی پیداوار میں تیرہویں، گندم کی پیداوار میں آٹھویں، کھجور کی پیداوار میں پانچویں، گنے کی پیداوار میں بھی پانچویں جبکہ کینو اور خوبانی کی پیداوار میں پوری دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔

پاکستان کپاس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس طرح آم کی پیداوار میں چوتھے، پیاز کی پیداوار میں آٹھویں، چاول کی پیداوار میں تیرہویں، گندم کی پیداوار میں آٹھویں، کھجور کی پیداوار میں پانچویں، گنے کی پیداوار میں بھی پانچویں جبکہ کینو اور خوبانی کی پیداوار میں پوری دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔

آخر قدرتی وسائل سے مالامال ملک معاشی طور پر اتنا کمزور کیوں ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے لیڈرشپ کا فقدان، لیکن کیا بیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں مخلص اور اہل قیادت موجود نہیں ہے؟ لیڈر شپ ضرور موجود ہوگی، لیکن ہمارے ملک میں وہ میکینزم نہیں ہے، جو صحیح قیادت کو سامنے لاسکے۔ دوسرے الفاظ میں یہاں حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) پر ایک ہی خاندان کا قبضہ ہے۔ یہ سیاسی جماعت تین دفعہ برسر قتدار آچکی ہے اور ہر دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر صرف ایک ہی شخص رہا ہے۔ اور اگر کل کو نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، تو سب کو معلوم ہے کہ پھر پارٹی کی قیادت ان کی بیٹی ہی سنبھالے گی، اور اگر بیٹی نہ بھی سنبھالے، تو پھربھی پارٹی کی قیادت کا عہدہ شریف فیملی سے باہر نہیں جائے گا۔

اگر کل کو نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، تو سب کو معلوم ہے کہ پھر پارٹی کی قیادت ان کی بیٹی مریم نواز ہی سنبھالے گی، اور اگر بیٹی نہ بھی سنبھالے، تو پھربھی پارٹی کی قیادت کا عہدہ شریف فیملی سے باہر نہیں جائے گا۔

اگر کل کو نواز شریف سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، تو سب کو معلوم ہے کہ پھر پارٹی کی قیادت ان کی بیٹی مریم نواز ہی سنبھالے گی، اور اگر بیٹی نہ بھی سنبھالے، تو پھربھی پارٹی کی قیادت کا عہدہ شریف فیملی سے باہر نہیں جائے گا۔

پھر آپ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو دیکھیں، تو اس پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے بھی بھٹو خاندان کا لائسنس ضروری ہے۔ کیونکہ ’’جب تک بھٹو زندہ ہے‘‘ تب تک اس پارٹی کی قیادت کوئی اور نہیں کرسکتا، چاہے اس میں کتنے ہی قابل لوگ کیوں نہ ہوں۔ اگر ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی بات کی جائے جو کہ تبدیلی کی دعویدار ہے اور برملا کہتی ہے کہ وہ سیاست میں موروثیت کے خلاف ہے، اس دعوے کو اگر صحیح مانا بھی جائے اور موروثیت کے معاملے سے ہم صرف نظر کرلیں، تب بھی اس پارٹی کی صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔

عمران خان خود اس بات کے معترف ہیں کہ 2013ء کے انتخابات لڑنے کے لیے ان کی جماعت کی طرف سے بہت سے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دئے گئے تھے، جو کہ قانون ساز بننے کے اہل نہیں تھے۔ اس طرح تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر مخالفین تو کیا، خود پارٹی کے اراکین بھی انگلیاں اٹھارہے ہیں۔ ان تینوں بڑی جماعتوں کے علاوہ بھی چند جماعتوں کو چھوڑ کر اگر ہم پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑائیں، تو یہ جمہوری جماعتیں نہیں بلکہ ایک قسم کا ’’کاسٹ سسٹم‘‘ہیں، جس کا سربراہ ضرور ایک مخصوص خاندان سے ہی ہوگا اور کسی اور میں چاہے کتنی ہی قابلیت کیوں نہ ہو، یہ مخصوص خاندان ان کے آگے ’’فل سٹاف‘‘ ہیں، جن سے آگے کوئی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سڑے ہوئے نظام میں صحیح قیادت کو آگے لانے کی صلاحیت موجود ہے؟ تو اس کا جواب ہے: ’’بالکل نہیں۔‘‘ کیونکہ سیاسی جماعت ایک پلیٹ فارم ہوتی ہے جس کے ذریعے ایک لیڈر ابھرتا ہے۔ لہٰذا اگر ہمارے حکمران واقعی جمہوریت پسند ہیں، تو انہیں سیاسی پارٹیوں پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرانا ہوگی۔ پارٹیوں کے اندر صاف وشفاف انتخابات کرانے ہوں گے اور اس کے لیے مؤثر قانون سازی کرانی ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو پھر صحیح قیادت کو آگے لانے کا موقعہ ملے گا اور جب صحیح قیادت سامنے آئے گی، تو پھر ہمارے وسائل کا صحیح استعمال ہوگا۔ ہمارا ملک ترقی کرے گا اور معاشی طور پر مضبوط بن جائے گا، بس یہی تبدیلی کی کنجی ہے ۔