ایک روسی اُستانی کلاس روم میں بچوں کو پڑھا رہی تھی کہ ’’روس میں انسانی عظمت اور احترام کے جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ بوڑھے، بچے سب شاداں و فرحاں ہیں۔ بچے ہر وقت کھیلتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ موٹے تازے ہیں اور ان کو ٹافیاں، کھلونے اور پھل مل رہے ہیں۔ الغرض روسی سرزمین جنتِ ارضی کا نمونہ ہے۔‘‘ استانی جی اپنی رو میں سرکاری کیسٹ بجا رہی تھیں کہ اسی اثنا میں اس نے دیکھا کہ تانیہ نامی ایک بچی رو رہی ہے۔ وہ بچی کے پاس گئی اور پوچھا کہ تم کیوں رو رہی ہو، اور تمہیں کیا چاہیے؟ بچی نے روتے ہوئے کہا کہ ’’مس، مجھے روس لے چلو۔‘‘
یہی صورتحال ہم پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے کہ وطنِ عزیز کے طبقۂ مقتدرہ کے کرتا دھرتا ہمیشہ سے اپنی تقاریر اور میڈیا کے ذریعے عوام کو طفل تسلیاں دیتے اور شہد اور دودھ کی نہریں بہاتے رہے ہیں۔ اس موقعہ پر مَیں بھی چیختا ہوں کہ مجھے طبقۂ مقتدرہ کے بیان کردہ پاکستان لے چلو۔ کیوں کہ جب سے ہم سنِ شعور کو پہنچے ہیں، تو اس وقت سے حکمرانوں کو سنتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بدعنوانی ختم ہوگئی ہے اور مہنگائی و بے روزگاری پر قابو پالیا گیا ہے، لیکن حالات ہمیشہ ان کی تقاریر اور میڈیائی بیانات کے برعکس ہوتے ہیں۔
ملک پر سوشلزم، غریبوں اور عوامی حکمرانی کا نعرہ لگانے والے بر سرِ اقتدار آئے، فوجی حکمران بھی آئے، اسلام کے نعرے بھی لگائے گئے لیکن غریب کے لیے کچھ بھی نہ بن پڑا، بلکہ مہنگائی مزید بڑھتی رہی۔بے روزگاری عام ہوتی رہی۔ روپیہ کی قیمت گھٹتی رہی۔ بد عنوانی میں مزید اضافہ ہوتا رہا، حکمرانوں کی شہ خرچیاں بڑھتی رہیں اور اس غریب ملک پر بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ بڑھتا گیا۔ نتیجے میں غریب، غریب تر اور مال دار، مال دار تر ہوتا جا رہا ہے۔ بقولِ حبیب جالبؔ
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
وہی حالات ہیں فقیروں کے
یعنی وطنِ عزیز میں ہمیشہ سے طبقۂ مقتدرہ اور اس کے کاسہ لیس ہی مزوں اور چرچوں میں ہوتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس عام آدمی کی حالت ہر دور میں خستہ سے خستہ تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جو ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگایا جارہا ہے، نہ جانے آئندہ کون کیا نیا نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ بٹورے گا؟ آج اگر ایک طرف حکمران طبقہ دودھ اور شہد کی نہریں بہاتا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے خاتمے کے کھوکھلے نعرے لگارہا ہے، تو دوسری طرف حزبِ اختلاف کے سیاست دان بھی حکومتی دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں اور عوام کی زندگی خوشگوار بنانے کے خوش کن وعدے کرتے اور نعرے لگا رہے ہیں، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر یہ لوگ پھر اقتدار میں آئیں، تو وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ والا معاملہ ہوگا۔
کسے خبر تھی کہ لے کے چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔