کمراٹ، ضلع دیر بالا کی ایک خوبصورت اور دلکش وادی ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں اور برف سے اٹی ہوئی چوٹیوں کے دامن میں بہتا صاف و شفاف دریا یہاں کے حسن میں اضافہ کرتا ہے۔ چوں کہ وادئی کمراٹ دیر بالا کے پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ اس وجہ سے یہ دیر کوہستان کی خوبصورتی کے لیے عمومی اور پورے پاکستان کے لیے خصوصی اہمیت کی حامل وادی ہے۔
لفظ کوہستان فارسی کے الفاظ ’’کوہ‘‘ اور ’’ستان‘‘ کا مرکب ہے، جس کے معنی پہاڑوں کی سرزمین کے ہیں۔ لفظ ’’کوہستانی‘‘ یہاں پر بولی جانی والی زبان اور سننے والے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کوہستان کے نام سے ایک ضلع ہزارہ ڈویژن میں ہے جو انڈس کوہستان اور ہزارہ کوہستان کے نام سے بھی مشہور ہے۔ لفظ کوہستان کنڑ (افغانستان)، سوات کوہستان، دیر کوہستان اور اباسین کوہستان میں رہنے والے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہاں پر بولی جانی والی زبانوں کو دردی کہا گیا ہے۔ دردی زبانوں میں کوہستانی زبانیں زیادہ معروف ہیں۔ تنگ و پُرخطر پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے خاندانوں میں ’’داردی‘‘ خاندان نمایاں ہیں۔ داردی خاندان کو مشہور گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان گروہوں میں انڈس کوہستانی، گاؤری، توروالی، داتا پوری اور تیراہی کے گروہ شامل ہیں۔
گندھارا تہذیب پر ہن اور سیتھین کے وحشی حملوں کی وجہ سے تباہی ان علاقوں سے نقلِ مکانی کا باعث بنی۔ اس نقلِ مکانی میں زیادہ تر داردی آبادی تھی۔ یہ لوگ اپنی جان کی حفاظت کے لیے پہاڑوں کی طرف نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے۔ بعد میں پشتون قبائل آہستہ آہستہ شمال کی طرف بڑھنے لگے۔ نمک کی تجارت کی غرض سے پشتون قبائل پہاڑی علاقوں سے متصل میدانوں میں بسنے لگے۔ اس طرح کئی سالوں بعد ان میدانی علاقوں پر پشتون قابض ہوگئے، تو انہوں نے بالائی وادی پر حملہ کردیا۔ بالائی وادیوں میں بسنے والے داردی ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ پشتونوں نے یلغار کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیا۔ اس کے نتیجے میں داردی لوگ مارے گئے۔ اونچے اونچے ٹھیلوں پر پہرہ دیتے، تاکہ دشمن کے آنے کا پتا لگا سکیں۔ رات کو اس غرض سے آگ جلائی جاتی۔ بالآخر دادری قوم نے سرِ تسلیم خم کیا اور یہ لوگ پشتونوں کی وجہ سے مسلمان ہوگئے۔ چوں کہ یہ لوگ پشتونوں کی وجہ سے مسلمان ہوئے تھے، لہٰذا انہی کا رہن سہن اور طرزِ معاشرت اپنایا۔ پشتون ان لوگوں کو ’’فقیر‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
یوسف زئی پشتونوں میں رائج زمینوں کا اجتماعی ملکیتی طریقہ ’’ویش‘‘ رائج ہوگیا، جس سے ان علاقوں کی معاشی صورتحال مزید بگڑ گئی۔ زمینی تنازعات پر جنگ و جدل اور قتل و مقاتلے کا آغاز ہوا، جس سے پیدا ہونے والی دشمنی کے اثرات اب بھی ان وادیوں میں موجود ہیں۔

وادئی کمراٹ کے مقامی کوہستانی کی تصویر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

آمدم برسرِ مطلب، دیر کوہستان اپنی خوبصورتی میں یکتا ہے۔ یہاں کی وادئی کمراٹ اپنے بے پناہ حسن کی بدولت دیر کے ماتھے کا جھومر ہے۔ اپنے ملکوتی حسن کی وجہ سے کمراٹ پاکستان کے کسی بھی خطے سے کم نہیں ہے۔ لفظ کمراٹ وادی میں بولی جانی والی زبان گاؤری کے دو لفظوں ’’کوئی‘‘ اور ’’باٹ‘‘ کے مجموعہ سے نکلا ہے۔ کوئی کے لفظی معنی وادی یا درہ کے ہیں، جب کہ باٹ پتھر کو کہتے ہیں۔ وقت کے تغیر کے ساتھ ساتھ ’’کوۂ باٹ‘‘ اور بعد میں’’کمراٹ‘‘ بن گیا۔
سطحِ سمندر سے 8100 فٹ بلندی پر واقع وادئی کمراٹ ایک طرف پینتیس (35) کلومیٹر طویل و کشادہ ہے، تو دوسری طرف سرسبز و شاداب بھی ہے۔ فلک بوس پہاڑ اور برف پوش چوٹیوں کے مناظر دل موہ لینے والے ہیں۔ دیار، صنوبر اور کائل کے دیو قامت درخت جب یخ بستہ ہواؤں سے جھوم اٹھتے ہیں، تو دنیا میں جنت کا احساس اُبھرتا ہے۔ صاف و شفاف پانی کے جھرنے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بخشتے ہیں۔
وادئی کمراٹ تک جانے کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک سوات، کالام، بحرین اور اتروڑ سے آتا ہے۔ یہ راستہ کافی مشکل اور لمبا ہے لیکن ایک ساتھ کالام اور کمراٹ کی خوبصورتی سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔ دوسرا راستہ تیمرگرہ اور شرینگل سے آتا ہے۔ یہ راستہ آسان ہے۔ اس پر باآسانی عام گاڑی میں کمراٹ پہنچا جا سکتا ہے۔ وادی کا گیٹ وے ’’خوگے اُوبہ‘‘ ہے، جہاں پر ’’بابِ کمراٹ‘‘ بنایا گیا ہے۔ بابِ کمراٹ سے آدھا گھنٹا سفر کے بعد وادی کا ہیڈ کوارٹر شرینگل آتا ہے۔ شرینگل سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلہ پر دیر کوہستان کا پہلا گاؤں ’’پاتراک‘‘ آتا ہے، جس کو مقامی زبان ’’راج کوٹ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ پاتراک سے چھے کلومیٹر کے فاصلہ پر چھتر بتور، ڈھور، بترور اور ملاخیل اقوام کا گاؤں ’’بیاڑ‘‘ آتا ہے۔ بیاڑ سے آگے ’’بری کوٹ‘‘ گاؤں آتا ہے۔ یہاں پر بسنے والی قومیں کاٹنی اور اخونزادگان ہیں۔

وادئی کمراٹ کا گیٹ وے "خوگے اُوبہ” جہاں پر ’’بابِ کمراٹ‘‘ بنایا گیا ہے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

بری کوٹ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر ’’کل کوٹ‘‘ گاؤں ہے۔ کل کوٹ کی مقامی زبانیں گاوری اور کل کوٹی ہیں۔ دیر کوہستان کی یہ خاصیت ہے کہ ہر گاؤں میں الگ الگ قومیں آباد ہیں۔ ہر گاؤں کی الگ الگ بولی ہے، جن کو مشترکہ طور ’’کوہستانی‘‘ کہا جاتا ہے۔
کل کوٹ سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر دیر کوہستان کا دارالخلافہ تھل آتا ہے۔ تھل تک جاتے ہوئے دریا بہتا ہے۔ دریا کے بائیں جانب لاموتی گاؤں ہے اور دائیں جانب تھل ہے۔تھل میں آپ کا استقبال یہاں کی حسین شاہکار مسجد دارالسلام کرے گی۔ اس مسجد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خالص لکڑی سے بنی ہوئی ہے۔ اسے 1865ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 1930ء میں اس مسجد میں آگ لگ گئی جس سے اس کو جزوی نقصان پہنچا۔ سات سال کے طویل وقت میں اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا اور 1953ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس زمانہ میں آرا مشین نہیں ہوا کرتی تھی۔ مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والی لکڑی کو ہاتھوں سے اس طرح تراشا گیا ہے جیسے آج کل کے زمانہ میں مشینوں سے تراشی جاتی ہے۔ بے پناہ خوبصورت بناؤٹ اور قدیم طرزِ تعمیر کا شاہکار ’’مسجد دارالسلام‘‘ دیکھنے لائق عمارت ہے۔

قدیم طرزِ تعمیر کا شاہکار ’’مسجد دارالسلام‘‘ کا روح پرور منظر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

اب اس کی دوسری منزل پر کام جاری ہے۔ جہاں پر لاہور کے کاریگر مسلسل چار سالوں سے کام کررہے ہیں۔ دوسری منزل مکمل ہونے میں ابھی کم ا ز کم تین سال مزید درکار ہیں۔

دیر کوہستان کے دارالخلافہ تھل کا ایک خوبصورت منظر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

تھل آٹھ اقوام کا مسکن ہے، جن میں جنگرو، دوکنور، ملاخیل، دامچور، ملیکور اور کھوٹور شامل ہیں۔ تھل سے چھے کلومیٹر کے فاصلہ پر مرغزاروں، آبشاروں اور تاحدِ نگاہ سرسبز چراگاہوں کی سرزمین کمراٹ آتی ہے۔ وادئی کمراٹ کے مشرق میں مہوڈنڈ کالام ، مغرب اور شمال میں چترال جب کہ جنوب میں دیر بالا اور دیر پائین کے علاقے ہیں۔
کمراٹ میں سب سے پہلے فارسٹ ریسٹ ہاؤس آتا ہے۔ اس کے بعد فلک بوس پہاڑوں کے بیچوں بیچ 35 کلومیٹر پر محیط کمراٹ کی وادی شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں کی مشہور چراہگاہوں میں گمان شاٹ، سک بانال اور جار کھور ہے۔ جہاں سے آگے دو جنگا، کنڈول اور پھر کنڈول جھیل آتی ہے۔
کمراٹ میں کسی بھی جگہ قیام کے بعد لال گاہ میں کمراٹ کی سب سے اونچی اور خوبصورت آبشار واقع ہے۔آبشار کی اونچائی تقریباً 100 تا 120 فٹ ہے۔ آبشار سے آگے بھتوٹ سے دو کلومیٹر کے فاصلہ پر ’’کالا چشمہ‘‘ موجود ہے۔ کالا چشمہ کے ساتھ مقامی افراد نے ڈھابے بنائے ہوئے ہیں، جہاں پر گرم پکوڑوں اور چائے سے محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔ کالا چشمہ سے آگے اور کمراٹ کا آخری سِرا ’’دوجنگہ‘‘ آتا ہے۔ جہاں پر دو دریا مل کر دریائے کمراٹ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ دریائے کمراٹ آگے جاکر چکیاتن کے مقام پر دریائے پنج کوڑا سے جا ملتا ہے۔ دو جنگہ تک کا سفر گاڑی میں طے کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر پیدل جایا جائے، تو راستہ کے فطرتی حسن سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ یہاں کی یخ بستہ ہوائیں متواتر درختوں سے ٹکراتی ہیں۔ مرغ زریں، بیگر اور چکور کی مسحور کن آوازیں کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ دریائے کمراٹ سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا، ٹراوٹ، راہو اور مہاشیر مچھلیوں کا تحفہ دیتا ہے۔
1998ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کمراٹ میں ایک دن قیام کیا تھا۔ 30 مئی 2016ء کو موجودہ وزیراعظم عمران خان نے یہاں کا مختصر دورہ کیا تھا، جسے الیکٹرانک میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر بے حد پذیرائی ملی تھی۔ تب سے کمراٹ کی خوبصورتی پوری دنیا پر عیاں ہوئی۔ اب یہاں ہر جگہ ہوٹلز تعمیر ہوچکے ہیں۔ جہاں پر ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں۔ سڑک پر کام جاری ہے جسے چند سالوں میں مکمل کیا جائے گا۔

وادئی کمراٹ کا سب سے خوبصورت مقام "جہاز بانڈا” جس پر جنت کا گماں ہوتا ہے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

تھل کے ساتھ واقع گاؤں لاموتئی سے جنوب مشرق کی طرف پانچ کلومیٹر کے فاصلہ پر وادئی جندرئی آتی ہے۔ یہاں پر ’’دندر‘‘ نامی دیہات میں یہاں کے مقامی راجا تاج محمد نے ایک میوزیم بنایا ہے، جس میں مقامی رسم و رواج اور معاشرت سے جڑی ثقافتی اشیا موجود ہیں۔ میوزیم کا بنیادی مقصد مقامی سیاحت و ثقافت کو اجاگر کرنا ہے۔ میوزیم کے ساتھ پارکنگ موجود ہے۔ اکثر سیاح جہاز بانڈا تک جاتے ہوئے یہاں پر گاڑی پارک کرتے ہیں، لیکن ایسا کرنے سے جہاز بانڈا تک مزید تین گھنٹے کا سفر پیدل کرنا پڑتا ہے۔

راجا تاج محمد کا عجائب گھر جس میں علاقہ کی تہذیب و ثقافت کی  مختلف نمونے رکھے گئے ہیں۔ (فوٹو: لکھاری) 

میوزیم سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر ’’گام سیر‘‘ کا علاقہ ہے۔ یہاں گاڑی پارک کرکے پانچ گھنٹوں میں جہاز بانڈا پیدل جایا جا سکتا ہے، لیکن اگر فور بائے فور گاڑی یا جیپ ہو، تو پھر ’’ٹکئی‘‘ میں گاڑی پارک کرکے چار گھنٹوں میں جہاز بانڈا پہنچا جا سکتا ہے۔ٹکئی سے آگے گاڑی نہیں جاسکتی۔ پیدل سفر کافی تھکا دینے ولا اور صبر آزما ہے۔ جہاز بانڈا پہنچ کر ساری تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ ٹکئی سے خچروں اور گدھوں کے ذریعہ بھی جایا جا سکتا ہے۔
جہاز بانڈا کی وجۂ تسمیہ راجا تاج محمد کے بقول کچھ یوں ہے کہ ’’پرانے زمانے میں یہاں پر فرنگیوں نے ہیلی کاپٹر اُتارا تھا۔ جب ہمارے بزرگوں کو پتا چلا، تو وہ یہاں پر دوڑے ہوئے آئے، لیکن جہاز کچھ وقت کے بعد واپس چلا گیا۔ اسی وجہ سے اس جگہ کا نام جہاز بانڈا پڑگیا۔‘‘

پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک "جہاز بانڈا” (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

جہاز بانڈا تقریباً چار پہاڑیاں سر کرنے کے بعد ایک وسیع اور سرسبز و شاداب میدان ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً گیارہ ہزار فٹ بلند جہاز بانڈا اپنے دامن میں بے پناہ وسعت اور دلربائی رکھتا ہے۔ یہاں کی گھاس پر رات کو شبنم کے قطرے پڑ پڑ کر صبح موتیوں کی مانند چمکتے ہیں۔ جھومتے درخت اور جنگلی پھولوں کی مہک سے دل جھوم جاتا ہے۔ آسمان پر آنکھ مچولی کھیلتے بادلوں کے ٹکڑے دلوں کو گدگداتے ہیں۔

بانڈہ تک گدھوں اور خچروں پر اشیائے خور و نوش لاد کر لے جائی جاتی ہیں۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

یخ بستہ ہواؤں اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو میں پیدل چلتے ہوئے یہاں پر ایک خوبصورت آبشار بھی ہے۔ یہ آبشار سوات شنگرو آبشار سے مماثلت رکھتی ہے۔ ٹھوس حالت سے مائع میں تبدیل ہوتے پانی کی یہ آبشار تقریباً پچاس فٹ بلندی پر واقع ہے۔ جہاں سے یہ گرتے ہیں تو کئی میٹر تک پانی کی پھوار محسوس ہوتی ہے۔ اس آبشار کے قریب تصویر کھینچنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ پھوار کی وجہ سے اکثر کیمرے کا لینز گیلا ہوجاتا ہے۔
آبشار سے چند میٹر کے فاصلہ پر سپین بانڈا آتا ہے۔ جہاں پر ایک ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا ہے، جو راجا تاج محمد کی زیرِ نگرانی ہے۔ جہاز بانڈا میں کئی دیگر ہوٹلز تعمیر ہوچکے ہیں۔ یہاں رات بسر کرنے کے لیے جگہ جگہ پر ٹینٹ موجود ہیں، جنہیں مناسب معاوضہ دے کر کرایہ پر لیا جا سکتا ہے۔ جہاز بانڈا کے مغرب کی طرف چار گھنٹے کے فاصلہ پر کٹورا جھیل قدرت کی حسین اور نرالی تخلیق ہے۔ کٹورا جھیل کا وہ مقام جہاں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے، قابلِ دید ہے۔ جھیل شکل میں گول ہے۔
کمراٹ اور جہاز بانڈا کے لوگوں کا عام پیشہ کاشتکاری ہے۔ یہاں پر آلو اور گوبھی کی کاشت بڑی مقدار میں ہوتی ہے۔ بعض افراد ملازم پیشہ ہیں۔ دیگر پیشوں میں جڑی بوٹیوں کی فروخت، مشروم اور گلہ بانی قابل ذکر ہیں۔

وادئی کمراٹ کے سفر میں شریک دوستوں کی باجماعت تصویر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

قارئین، ربِ جلیل نے بڑی فیاضی کے ساتھ دیر کوہستان کو نوازا ہے۔ یہاں کے سحر میں جو ایک بار جکڑ گیا، پھر اس کی گلوخلاصی مشکل سے ہوتی ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ اگر دنیا میں جنت دیکھنے کا شوق چرے، تو وقت نکال کر اس خطے کی سیر ضرور کیجیے۔ یہاں آکر آپ کچھ لمحے سکون کے گذاریں گے اور یہاں کے حسین نظاروں کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرکے ضرور سکون محسوس کریں گے۔
قارئین، مجھے جب بھی اپنی ضرورت پڑتی ہے، مَیں ہمیشہ ایسی جگہوں کا رُخ کرتا ہوں:
مَیں سب سے دور جانا چاہتا ہوں
مجھے اپنی ضرورت پڑگئی ہے

……………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔