خیبر پختون خوا کے پہاڑی علاقوں میں پانی کی کمی کا مسئلہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ سوات، ایبٹ آباد، بونیر، دیر، چترال اور دیگر پہاڑی علاقوں میں پانی کی کمیابی کی شکایت عام ہے۔ پہاڑوں میں پینے اور دیگر ضروریات کے لیے لوگوں کا چشموں اور واٹر پمپ پر انحصار ہوتاہے۔ سال کے بعض مہینوں میں چشمے خشک ہوجاتے ہیں جب کہ زیادہ تر علاقوں میں واٹر پمپ کے ذریعے پانی پہنچانا ممکن نہیں ہوتا، تو مجبوری کی حالت میں پہاڑی علاقوں میں لوگ دور دور سے خود یا جانوروں پر پانی لانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ان حالت میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ ترخواتین ہی کئی میلوں سے پانی لانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آزاد کشمیرمیں اسلامی ترقیاتی بینک نے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس میں بارش کے پانی کو زیرِ استعمال لایا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر کے اسلامی ترقیاتی بینک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نظیر حسین گردیزی نے کشمیر کے دور دراز علاقے میں ایک ماڈل سکول میں بارش کے پانی کو زیرِ استعمال لانے کا منصوبہ مکمل کیا ہے جس میں انہوں نے ٹین کی چھت کے ساتھ پائپوں کی مدد سے پانی اکھٹاکرنے کی سبیل نکالی، جس میں دوہزار سے زائد لیٹر پانی کے واٹر ٹینک رکھے گئے ہیں۔ نظیر حسین کے مطابق سکول کی چھت سے سالانہ چھے لاکھ لیٹر پانی گرتا ہے۔ ان کے مطابق پندرہ سے بیس دن تک اگر اس علاقے میں بارش نہ ہو، تو سٹور شدہ پانی سکول کے ڈیڑھ سو سے زائد بچوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ سکول کی ضروریات میں چار واش روم، سکول کی صفائی اور بچوں کے لیے پینے کا صاف پانی شامل ہے۔

کشمیر، وہ ماڈل سکول جس میں بارش کے پانی کو زیرِ استعمال لانے کا منصوبہ مکمل کیا جا کچا ہے۔ (فوٹو: نیاز احمد خان)

پراجیکٹ ڈائریکٹرکے مطابق درمیانے گھر کی چھت جوکہ تیس بائے تیس فٹ ہوتی ہے، اس سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ لیٹر پانی گرتا ہے جو کہ عموماً ضائع ہوتا ہے۔ ہم نے کبھی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مسئلے کا حل ان علاقوں میں ہی موجود ہے۔ پانی کو سٹورکرنے اور صاف کرنے کے لیے سادہ سا طریقہ جس پر ایک مرتبہ خرچہ کیا جاتا ہے اور پھر لمبے عرصے تک اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق ایک درمیانے گھر کے لیے بازار میں ملنے والی عام سی ٹینکی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح پانی کو صاف رکھنے کے لیے ایک عدد فلٹر جو کہ خود ہی بنایا جاسکتا ہے، بھی درکار ہوتا ہے۔ فلٹرمیں ریت، بجری اور کوئلہ لگاکر پانی کو پینے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ ایک ہزار گیلن پانی کو سٹور کرنے کے لیے چالیس سے پچاس ہزار روپے خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح یہ پانی ایک درمیانی گھر کے ایک مہینے کی ضرورت کے لیے کافی ہوتا ہے۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق اگر ایک ہزار گیلن سٹور کرنے والا سسٹم سات لاکھ گھروں میں لگایا جائے، تو یہ منگلا ڈیم میں جمع شدہ پانی کا پانچواں حصہ بنتا ہے، جس کو ہم بلاشبہ استعمال میں لاسکتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق گھروں میں استعمال ہونے والے پانی میں سے صرف دس فی صد پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ باقی پانی صفائی، دھلائی، سبزیوں کی کاشت، مال مویشی اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح بارش کے پانی کو ضرورت میں لاکر ہم پانی کے ذخائر کو بڑھا سکتے ہیں۔ یوں ان علاقوں میں سبزہ زیادہ ہوجائے گا۔ درختوں اور پھلوں کے باغات کے لیے پانی مہیا ہوجائے گا۔ موسمی تبدیلی کے اثرات کم سے کم پڑیں گے، جب کہ سب سے اہم ترین بات لوگوں کو آسانی سے پانی میسر ہوگا۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر کے سروے کے مطابق یہ طریقۂ کار سندھ کے صحراؤں میں بھی کامیاب رہا ہے، جہاں پر سالانہ اوسط بارش انتہائی کم ہے۔
قارئین، پاکستان میں ہر سال بارش کا لاکھوں مکعب پانی ضائع ہوتا ہے۔ اس کو باآسانی کام میں لایا جاسکتا ہے۔

…………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔