پاکستان کے ایک گورنر جنرل "ملک غلام محمد خان” کی صحت اتنی خراب تھی کہ منھ سے رال ٹپکنے کے علاوہ اس کے ہاتھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ قلم پکڑ کر کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرلیتے، لیکن اقتدارکے مزے لوٹنے کی خاطر پاکستان کی تعمیر و ترقی اور بہتر مستقبل کے لیے اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اسے "اعزازی جنرل” سکندر مرزا نے زبردستی معزول کرکے خود اقتدار پر قبضہ جما بیٹھا۔ سکندر مرزا کو بھی پاکستان سے پیار تھا، نہ اس کی عزت و وقار اور مستقبل ہی عزیز تھا۔ اُس کو اُس وقت کے وزیرِ دفاع جنرل ایوب خان نے اقتدار سے ہٹانے کے بعد زبردستی جلا وطن کیا۔ جنرل سکندر کو دیارِ غیر میں محنت مزدوری کرکے کس مہ پرسی کی زندگی گزارنا پڑی۔

جنرل ایوب خان، جنرل سے فیلڈ مارشل بن بیٹھے اور دس سال تک پاکستان اور پاکستانی عوام کی قسمت سے کھلواڑ کرتے رہے۔ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر "غدارِ وطن” کا الزام فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں لگا۔ بعض تجزیہ نگار کے خیال میں فاطمہ جناح طبعی موت نہیں مری، بلکہ انہیں نادیدہ قوتوں نے قتل کیا تھا۔ پاکستان کے بعض (بلکہ اکثر) سرکاری افسران حکمرانوں کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دیتے رہے۔ جب عوام کی آواز فیلڈ مارشل ایوب خان کو اپنے نواسوں کے توسط سے گھر پہنچی، تو فیلڈ مارشل ایوب نے جاتے جاتے پاکستان اور پاکستانی عوام پر ظلم کرتے ہوئے اقتدار کو جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے کچھ سوچ کر بالغ رائے دہی (ون مین، ون ووٹ) کے تحت قومی انتخابات کرائے۔ انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان (آج کا بنگلہ دیش) میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی۔ اقتدار شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کرنا ان کا آئینی حق تھا۔ جنرل یحییٰ خان اپنی صدارت پکی کرانے کے لیے اسمبلی اجلاس میں تاخیر کرنے کے لیے حیلوں بہانوں سے کام لیتے رہے، جب جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا، تو ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ "جو کوئی بھی اسمبلی اجلاس کے لیے مشرقی پاکستان جائے گا، تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔” اور ہوسِ اقتدار میں یہ نعرہ بھی لگایا کہ "اُدھر تم، اِدھر ہم۔” یوں اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں اور جنرل یحییٰ کے ہوسِ اقتدار نے ملک کو دولخت کیا۔

پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، تو بھٹو نے بیان دیا کہ "شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔” بھٹو نے اپنے اقتدار میں پاکستان اور پاکستانی عوام کے بہتر مستقبل کی بات کرنے والے اپنے پارٹی لیڈروں کو شاہی قلعہ لاہور میں قیدِ تنہائی میں رکھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مفاد پرست پارٹی لیڈروں اور افسر شاہی نے تادمِ آخر  اندھیرے میں رکھا اور آخرِکار جنرل ضیاء الحق نے سیاست دانوں کے لڑائی جھگڑوں سے فائد اُٹھاتے ہوئے اقتدار پر شب خون مار کر ذوالفقار علی بھٹو سمیت اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کیا۔ اقتدار پر قبضہ کرکے جنرل ضیاء الحق پاکستان کے مفادات کو پسِ پشت ڈال کر امریکہ اور یورپی ممالک کی خاطر روس سے افغانستان میں پراکسی وار لڑتا رہا۔ عالمی طاقتوں نے مفادات پور ے ہوتے ہی جنرل ضیاء الحق کو اگلے جہاں کے سفر پر روانہ کیا۔

اسی دوران میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کو اقتدار کی دو، دو باریاں ملیں۔ پھر بھی ان کی ترجیحات پاکستان نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفادات رہے۔ نتیجتاً پاکستان ترقی کی بجائے مسلسل زوال کی طرف سفر کرتا رہا۔ اسی دوران میں ایک اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر بزورِ بازو قبضہ کرکے میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار اور نواز شریف نے جان بچانے کے لیے "معاہدہ” کیا۔ جنرل مشرف اپنے پیش روؤں کی طرح اقتدار کو طول دینے کے لیے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔ مفاد پرست سیاست دان، جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل کر امریکی مفادات کو پورا کرنے اور تحفظ دینے میں لگے رہے۔ دس سال بعد ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو باری باری اقتدار ملا، لیکن افسوس کہ آج تک اقتدار پر قابض حکمرانوں میں سے کسی کی ترجیح پاکستان نہیں۔ بس سب اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔
2018ء کے قومی الیکشن میں عوام نے ان مفاد پرست سیاست دانوں کو اقتدار سے نکال باہر کیا، تو وہ آج ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ ان کی مفاد پرستی اور منافقت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں عالمی طاقتوں کے آلہ کار منظور پشتین، محسن داوڑ، علی وزیر اور ان دیگر ساتھیوں کے حق میں ہنگامہ آرائی اور پاک فوج جیسے مقدس ادارے کے خلاف بیان بازی سے بھی باز نہیں آتے۔ "نائن الیون” کا ڈراما، القاعدہ، داعش، طالبان اور ان جیسی دیگر تنظیمیں خود امریکہ کی بنائی ہوئی اور پروردہ ہیں۔ پاکستان کی افواج نے جانوں کا نذارانہ دے کر ملک سے دہشت گردی کو کسی حد تک ختم کردیا ہے۔ ابھی کل پرسوں بھی ہمارے تین افسر اور ایک جوان شہید اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ وزیر ستان خڑ کمر میں مسلسل رونما ہونے والے واقعات اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اسی طرح وہ پاکستانی عوام کو پاکستان کی بقا کے ضامن ادارے پاک فوج کے خلاف اُکسا رہے ہیں۔ دوسری طرف اقتدار کے بھوکے سیاست دان انہی افراد کے حق میں صف آرا ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی بھی سیاست دان نے یہ آواز نہیں آٹھائی کہ 2005ء سے 2010ء کے درمیانی عرصہ میں سینڈک سے جو پندرہ سو ٹن سونا اور تانبا حاصل کیا گیا تھا، اُس کا کیا بنا؟ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ کیا ہمارے ارکانِ اسمبلی میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اسمبلی فلور پر یہ مطالبہ کردیں کہ اس کے بارے میں کھلی بحث کرکے قوم کو آگاہ کیا جائے کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی ترجیح پاکستان نہیں۔ انہیں اپنے ذاتی مفادات مقدم ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کا شکار ہوتے ہوئے بھی دہشت گرد ملک قرار دیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا نے اپنی نوجوان نسل اور مسلم دنیا کے میڈیا نے خود مسلم دنیا کے ذہن میں یہ بات بٹھائی ہے کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہے۔ اگر عوام اور بالخصوص سیاسی قائدین نے ہوش کے ناخن نہ لیے، تو اس دنیا میں ہم کو محکوم بن کر ہی رہنا ہوگا۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔