سوات کے بالائی علاقوں میں مگس بانی کا کاروبار خوب چمک رہا ہے۔ ہر سال یہاں سے ٹنوں کے حساب سے دیسی شہد حاصل کیا جاتا ہے۔ یوں کاروبار کرنے والوں کو کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔
سوات کے بیشتر علاقوں میں مگس بانی کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ خاص کر تحصیل مٹہ کے یونین کونسل گوالیرئی میں یہ کاروبار ایک طرح سے صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ اس یونین کونسل کے مختلف علاقوں (نل کوٹ، پشتونڑئی وغیرہ) میں لوگوں نے اپنے گھروں، حجروں اورطبیلوں کی دیواروں میں لکڑی یا مٹی سے ان مکھیوں کے لیے چھتے بنائے ہیں جن میں جنگلی مکھیاں آکر قیام کرتی ہیں۔ مقامی زمین داروں اور اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف ان کے علاقوں میں سالانہ 20 سے 25 ٹن تک دیسی شہد کی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ یوں ان کو لاکھوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔
اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے مطابق ہر شخص نے اپنے گھر کی دیواروں میں چھتوں کے لیے ایک سے زیادہ جگہیں بنائی ہیں۔ ایک جگہ نصب شدہ بکس میں 9 کلو تک شہد بنتا ہے۔ ان کے بقول ایک بکس میں مکھیاں ایک سے زیادہ چھتے بناتی ہیں۔ ایک بکس میں 25 سے 35 ہزار مکھیاں قیام کرتی ہیں اور وافر مقدار میں شہد بناتی ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے مطابق یہ شہد فارم میں تیار ہونے والے شہد سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اس دیسی شہد کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مگس بانی ان کے آباو اجدا کم از کم چار سو سالوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ علاقہ کے بزرگ میاں سید جلال کے بقول ان کے دادا، پر دادا کے وقت سے وہ اپنے گھروں میں مگس بانی سے وابستہ ہیں۔ اب ان کی آنے والی نسل بھی اس کام سے بخوبی واقف ہے۔ نئی نسل اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کاروبار پر خرچہ کم آتا ہے اور اس کی آمدن زیادہ ہے ۔
مگس بانی سے وابستہ لوگوں کے مطابق موسمِ بہار کے آغاز پر مکھیاں ان دیواروں میں بنائے گئے بکسوں میں آتی ہیں۔ ملکہ کے آنے کے بعد وہ بکس کے اندر چھتا بنانے اور پھر شہد بنانے کا کام شروع کرتی ہیں۔ یہ عمل موسمِ بہار سے موسمِ گرما تک جاری رہتا ہے۔ پھر نومبر کے مہینے میں ان بکسوں کو کھول کر چھتوں کو الگ کرکے اس سے شہد حاصل کیا جاتا ہے۔

یو سی گوالیرئی کے گاؤں نلکوٹ میں ہر گھر میں ایسے بکس مکھیوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ (فوٹو: حضرت علی)

گوالیرئی کے ایک مگس بان رحمان شاہ نے کے بقول دیسی شہد کے کھانے کے شوقین لوگوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لوگ نومبر کے مہینے سے پہلے ان کے ساتھ شہد کے لیے اےڈوانس بکنگ کرتے ہیں۔ ان کے علاقہ کے زیادہ تر لوگ جو امریکہ، برطانیہ اور یورپ یا خلیجی ممالک میں ہیں، ان کے لئے یہاں کے لوگ دیسی شہد بطورِ تحفہ بھیجتے ہیں۔اس وقت اس دیسی شہد کی فی کلو قیمت 26 سو روپے سے3 ہزار روپے فی کلو ہے۔
مگس بانی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ اس کام کے لیے موزوں ہے۔ اگر ان کو حکومت اور متعلقہ محکمہ کی سرپرستی مل جائے اور ان کو مگس بانی کے جدید طریقوں سے آگاہ کیا جائے، تو ان علاقوں میں یہ کاروبار باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر لے گا جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی معیشت بہتر ہو جائے گی۔ پھر یہ دیسی شہد برآمد بھی کیا جاسکے گا، جس کی وجہ سے ملکی خزانے کو فائدہ پہنچے گا۔
نلکوٹ میں مگس بانی کا کام کرنے والے محمد علی شاہ کا اس حوالہ سے کہنا ہے کہ مکھیوں کے بکس میں صرف جنگلی مکھیاں آتی ہیں اور فارمی مکھیاں نہیں آتیں۔ ان کے مطابق ان چھتوں کے اندر ایک مکھی ہوتی ہے جس کو ملکہ کہا جاتا ہے۔ ملکہ چھتے کے اندر ہی رہتی ہے اور بچوں کو جنم دیتی ہے۔ باقی مکھیوں میں کچھ بکس کے اُس سوراخ کی نگرانی کرتی ہیں، جس میں مکھیاں اندر چھتوں میں داخل ہوتی ہیں۔ ان مکھیوں کو ’’چوکیدار‘‘ کہا جاتا ہے۔ باقی ماندہ مکھیوں کو ’’کارکن‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو بکس سے نکل کر کھیتوں میں جاتی ہیں اور پھولوں سے رس حاصل کرکے واپس بکس میں آکر چھتوں میں شہد بناتی ہیں۔
مگس بانی سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ آڑو اور سیب کے باغات میں کیڑے مار دوا کے اسپرے کی وجہ سے شہد کی جنگلی مکھیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ ان کے علاقہ میں آڑو اور سیب کے بہت سے باغات ہیں جن میں وقتاً فوقتاً کیڑے مار ادویات کا اسپرے کیا جاتا ہے جس کا اثر ان مکھیوں پر ہوتا ہے۔ بدیں وجہ ہزاروں کی تعداد میں مکھیاں مر جاتی ہیں۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔