یہ ایک حقیقت ہے کہ روزہ ایک مشکل اور صبر آزما عبادت ہے، لیکن خالقِ کائنات کی اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ماہِ رمضان میں روزے رکھنے سے ایک مسلمان میں صبر و تحمل اور برداشت کا مادہ پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کی اجر کا وعدہ اللہ نے خود کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ عبادات میں انسان کو سرور اور اطمینان و تسکین حاصل ہوتا ہے لیکن تعجب کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں رمضان کا مقدس مہینا سایہ فگن ہوتے ہی بیشتر لوگوں کی طبائع بدلنے لگتی ہیں۔ کام کاج میں دل نہیں لگتا۔ دفاتر اور مدارس میں ورکنگ ٹھپ ہوجاتی ہے۔ بعض لوگ بستر سے لیٹ اُٹھتے ہیں۔ معمولی بات طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔ بعض اوقات بات زبانی تو تکار سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ حالاں کہ روزہ صبر و استقامت کا درس دیتا ہے۔
قارئین، ضمیر جعفری اردو میں طنز و مِزاح کا ایک مانا ہوا شاعر ہے۔ ان کی بیشتر نظمیں اور غزلیں معاشرے کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔ ذیل میں جعفری (مرحوم) اپنی ایک نظم میں روزہ دار کی طبیعت کا خاکہ روزہ دار ہی کی زبانی پیش کرتے ہیں۔
قارئین، اسے پڑھئے اور لطف اٹھایئے۔
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار میں روزے سے ہوں
ہر اک شے سے کرب کا تکرار، میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں
میرا روزہ اِک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں
میں نے ہر فائل کی دُمچی پر یہ مصرعہ لکھ دیا
کام ہوسکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں
اے مری بیوی، مرے رستے سے کچھ کتراکے چل
اے مرے بچو! ذرا ہُشیار، میں روزے سے ہوں
شام کو ہر زیارت آتو سکتا ہوں مگر
نوٹ کرلیں دوست رشتہ دار، میں روزے سے ہوں
تو یہ کہتا ہے لحن تر ہوکوئی تازہ غزل
میں یہ کہتا ہوں کہ بر خوردار، میں روزے سے ہوں

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔