صبح سویرے اور دوپہر کو اپنے اطراف پر ایک نظر ڈالیے، آپ کو چھوٹے بچے، بھاری بھر کم بستے اپنے کندھوں پر لادے دکھائی دیں گے۔ سکول کے معصوم بچے اپنے وزن سے زیادہ بھاری بستوں کے بوجھ تلے ادھ موے دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر بچے وزنی بستوں سے اس حد تک تنگ آجاتے ہیں کہ وہ باقاعدہ رونا شروع کردیتے ہیں۔
قارئین کرام! امسال محکمۂ تعلیم نے گذشتہ سال کے مقابلہ میں دو مضامین کا اضافہ کر دیا ہے۔ اب سرکاری تعلیمی اداروں میں دس کی بجائے بارہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ہر مضمون کے لیے الگ الگ کاپی بھی ہوتی ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ بارہ کتابیں، بارہ کاپیاں، سٹیشنری اور ساتھ میں بستے کا اپنا وزن ایک معصوم بچے کے کندھے پر لادا جاتا ہے اور اسے سکول بھیجا جاتا ہے۔
شہری علاقوں میں سکول جانے کے لیے گاڑیوں کا بندوبست ہوتا ہے، لیکن دیہاتی علاقوں میں یہ صورتحال گھمبیر ہوتی ہے۔ جہاں پر بچے دور دراز علاقوں اور پہاڑوں سے اتر کر گھنٹوں پیدل سفر کرتے ہیں۔ سکول سے واپسی پر بھی یہ بوجھ اپنے کمزور کندھوں پر لاد کر واپس جاتے ہیں۔ بعد میں ٹیوشن پڑھنے کے لیے بھی بیشتر بچے بوجھ لادے اکیڈمی آتے اور جاتے ہیں۔ دن میں چار مرتبہ یہ بچے بھاری بھر کم بستوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ زیادہ تر نجی تعلیمی ادارے یورپی ممالک کے تعلیمی نظام کی مثالیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، لیکن ان کے یہ دعوے صرف بچوں کے داخلوں تک محدود ہوتے ہیں۔ کتابوں اور کاپیوں سمیت بچوں کو ورک بُک بھی تھما دی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں نجی تعلیمی اداروں کے بچے زیادہ رحم کے متقاضی ہیں۔
نجی سطح پر نصاب کی نگرانی کے لیے مؤثر ادارہ نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر سکول اپنی مرضی و منشا سے نصاب ترتیب دیتا ہے، جس کا نتیجہ بھاری بستوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
حالیہ ایک میڈیکل رپورٹ کے مطابق سکول کے بستوں کا وزن بچوں کی جسمانی نشو و نما کو متاثر کرتا ہے۔ سر درد، آنکھوں کے پردوں پر برے اثرات، یادداشت کی کمزوری، چڑچڑاپن، کندھوں میں درد، سستی، ہاتھوں کے حس کی خرابی، لکھنے میں دشواری اور پاؤں کی کمزوری جیسے عارضے بچوں میں جنم لیتے ہیں۔ ان حالات میں بچوں کی تعلیمی نشو و نما کی بجائے، ان کی جسمانی نشو و نما میں رکاؤٹ پیدا ہوتی ہے جو بعد میں بڑے مسائل کا سبب بنتی ہے۔
ان مسائل سے گلو خلاصی کے لیے بچوں پر بوجھ کم کرنا پڑے گا، جو کہ حکومتِ وقت کا کام ہے، لیکن ایسا تب ممکن ہوگا جب کثیرالوقتی تعلیمی پالیسی بنائی جائے گی۔ ہر سال تعلیمی پالیسی کی تبدیلی میں ایسا ممکن نہیں۔ اب فوری طور پر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کے کُل وزن کا دس سے پندرہ فیصد تک سکول کا بستہ ہو۔ بستہ اس سے زیادہ وزنی نہ ہو۔ بستہ دو پٹوں والا ہو، جس کے پٹے کشادہ اور نرم ہوں۔ بچوں کو ترغیب دی جائے کہ دونوں پٹے کندھوں پر باندھا کریں۔ اکثر بچے ایک کندھے پر بستہ لادتے ہیں، جس سے بستہ کا وزن جسم کی ایک طرف ہوتا ہے۔ بستہ کمر سے تین، چار انچ اونچا رکھا جائے۔ سب سے اہم صرف وہی کتابیں اور کاپیاں بچوں کے بستوں میں رکھیں، جن کی سکول میں ضرورت ہو۔ ایسے بستے کا استعمال ضروری ہے جس میں زیادہ جیبیں ہوں۔ زیادہ جیبیں ہونے سے سٹیشنری اور کتابوں کا وزن ایک جگہ پر نہیں ہوگا، جس سے وزن کم ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔ بستہ میں سب سے نیچے بھاری کتابوں کو رکھا جائے اور اس کے اوپر ہلکی کتابیں اور کاپیاں رکھی جائیں۔ اسی طرح بھاری کتابیں کمر کے قریب آنے سے کندھوں پر وزن کم ہوجائے گا۔
حکومتِ وقت سمیت والدین کو بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ بچوں کے بھاری بستوں کو ہلکا کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ ان کو اٹھانے والے پھول ہیں۔ بھاری بوجھ تو گدھے اٹھایا کرتے ہیں، ننھی کلیاں نہیں!

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔