ریاست کی مثال ایک ماں کی سی ہوتی ہے اور ماں اپنے کسی بھی بچے میں کبھی فرق نہیں کرتی۔ نہ کوئی امتیازی سلوک کرتی ہے، چاہے وہ بچہ جسمانی معذور ہو، کالا کلوٹا ہو یا گورا چٹا۔ لیکن اگر سگی ماں اپنے بچوں میں تفریق کرے، تو اس کا ردعمل بھی بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح نے یہ پہلے سے واضح کر دیا تھا کہ ریاست کا کسی مذہب یا کسی کے رنگ نسل سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاست کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے اور عام شہریوں کی طرح انہیں برابر کے حقوق دے۔
جب ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں آئے ہندوؤں اور سکھوں کو جناح صاحب نے کھل کر کہا کہ اگر اپنی مرضی سے پاکستان کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہو، تو بحفاظت آپ کو بھارت بھیج دیا جائے گا۔ وگرنہ پاکستان میں آپ کے جان و مال اور عقیدے کو تحفظ فراہم کرنا ہمارا فرض ہے۔
اُس وقت حالات انتہائی کشیدہ تھے۔ دونوں طرف نفرت کی لگی آگ بری طرح پھیل چکی تھی، جس نے ہر گاؤں اور شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ ہر دوسرا بندہ مذہب اور دھرم کے نام پر قتل کرنے کو ثواب کا کام سمجھ رہا تھا۔ کل تک کبھی عید تو کبھی دیوالی اور وساکھی ساتھ منانے والے بھائی آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔ قصہ مختصر، کچھ ہندوؤں اور سکھوں نے بھارت جانے کو ہی غنیمت سمجھا اور کچھ نے اپنی سرزمین کو نہ چھوڑنے کی قسم کھائی۔ پھر چاہے انہیں جیسے بھی حالات سے گزرنا پڑرہا تھا۔ فیصلہ جذباتی تھا لیکن دل میں دھرتی ماں کے لیے پیار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ یقینا ہمارے بزرگوں نے ہر سختی برداشت کی، پر کسی نے اُف تک نہ کی۔ یہی حالات بھارت کے حصے میں بھی آئے۔ مسلمانوں نے بھی وہاں کافی کچھ برداشت کیا۔ کیوں کہ نہ تو ہمارے سکھ دودھ کے دھلے تھے، نہ ہندو۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں اکثر سکول سے غیر حاضر رہتا اور اس کی وجہ گاؤں کے ناسمجھ بچے، ایک دو استاد اور مولی صاحب تھی، جس کا تعلق پڑوس کے گاؤں سے تھا۔ وہ کبھی کبھار تمام حد یں پار کر دیتے تھے۔ کبھی وہ مجھے زبردستی کلمہ پڑھنے کو کہتے، تو کبھی میرے ہم جماعت کو یہ تلقین کرتے کہ ’’ہرمیت سنگھ اگر بغیر کلمہ پڑھے اس دنیا سے گیا، تو اللہ آپ سب کو معاف نہیں کرے گا۔‘‘ پھر طلبہ کیسے اپنے استاد کے حکم کوٹال سکتے تھے؟ خیر،ہم کچھ ایسی صورتحال میں بڑے ہوئے اور حالات بدل گئے۔ سوشل میڈیا آیا، تولوگوں میں تعصب کا رحجان کم ہوا۔ مَیں تقریباً پاکستان کے چاروں صوبوں میں گیا ہوں۔ مجھے ہر علاقے سے بے پناہ محبت ملی ہے، لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔ ابھی کچھ عناصر اور حالات کو ٹھیک ہونے میں وقت لگنا ہے، لیکن یہ بہ ظاہر مشکل لگ رہا ہے۔ جیسے کہ سندھ میں میاں مٹھو اور پیر ایوب جان سرحدی سرگرم عمل ہیں، جنہیں سندھ حکومت، وڈیروں اور پولیس کی غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام میں بھر پور حمایت حاصل ہے۔ ان عناصر نے اپنے اپنے ڈیرے ہر اس جگہ پر بنائے ہوئے ہیں جہاں ہندو آبادی زیادہ ہے۔ کچھ دنوں سے مجھے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ ایکٹیویسٹ کے برقی پیغامات مل رہے ہیں۔ ان کا گلہ بھی درست تھا اور میرا مؤقف بھی اپنی جگہ ٹھیک تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ ٓاپ انڈین اور بین الاقوامی چینلز پر برملا کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔‘‘ ان کے بقول، آپ سندھ آکر خود ایک دفعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ہماری ماں بیٹیوں کو کیسے دن دہاڑے میاں مٹھو اور پیر ایوب سرحدی کے غنڈے اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔ ہم علاقہ کے وڈیرے، تھانے اور کورٹ کچہریوں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکے ہیں۔ اپنا دکھڑا سنائیں، تو کسے؟ہمارا دکھڑا سننے کو کوئی تیار نہیں۔ ہر ادارہ ٹال مٹول سے کام لے کر جان چھڑاتا ہے۔ میڈیا پر دو دن خبر چلتی ہے اور پھر ایسا سناٹا چھاجاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ لوگوں کی عزتوں سے سرِ عام کھلواڑ جاری ہے۔ ہم جائیں، تو کہاں جائیں؟ انصاف مانگیں، تو کس کی دہلیز سے ؟ ان کی بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ مَیں یہ سوچتا ہوں کہ گھر کی بات محلے تک نہ جائے، تو اچھا ہوگا لیکن حقیت تو یہ ہے کہ گھر کو بنانے والے ہی اسے توڑنے کے درپے ہیں، تو پھر شکوہ کس سے؟
قارئین، میری بعض متاثرہ خاندانوں سے بات ہوئی۔ سن کر بہت افسوس ہوا کہ ماضی میں جن لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے شادی کا ڈراما رچایا گیا تھا۔ آج ان میں بعض لڑکیاں تقریباً نیم پاگل ہوکر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئی ہیں۔ کچھ کو جسم فروشی کے دھندے پر لگا دیا گیا ہے اور کئیوں کے ساتھ رونگٹے کھڑے کرنے والا ایسا ناروا سلوک کیا جاتا ہے، جو کبھی ہم پرانے زمانے کے قصے کہانیوں میں سنتے تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر مہینے تقریباً بیس سے پچیس کم سن ہندو بچیوں کو اغوا کیا جاتا ہے، جن کی عمریں 13 سال سے 16 سال تک ہوتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق نیچ ذات اور ان پڑھ گھرانوں سے ہوتا ہے۔ ان میں کچھ لڑکیاں جن کی آواز سوشل، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی زینت تو بن جاتی ہے، پر ڈھیر ساری لڑکیوں اور متاثرین کی آواز مقامی وڈیروں، پولیس اہلکار ’’وغیرہ‘‘ موقع پر ہی دبادیتے ہیں۔ ان حالات کا سامنا کرنے والے ہزاروں خاندان بھارت کی طرف نقلِ مکانی کرچکے ہیں اور کچھ کو اپنی بہن بیٹی کی عزت پامال ہونے کے ڈر سے نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت جانا پڑا۔ دیکھا جائے، تو سندھ کے ہندوؤں کی پاکستان کے لیے جو قربانیاں اور خدمات ہیں، وہ اگر مَیں گننے لگ جاؤں، تو مجھے دو تین کالم مزید لکھنے پڑیں گے۔
میرا سوال سب پہلے بلاول بھٹو سے ہے کہ آپ جو بھارت کی طرح سیکولر ازم کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور اپنی تقریروں میں اقلیتوں کو تحفظ دینے کا ذکرکرتے ہیں، کیا عملی طور اب تک آپ نے کچھ کیا ہے؟ میرے خیال میں بلاول صرف بھارتی میڈیا کی سرخیوں میں رہنے کے لیے یہ ڈراما کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن یہ جناب پھر بھی خاموش رہتے ہیں۔ آپ یہ سب جانتے ہیں۔ آپ انہیں روکنا بھی نہیں چاہتے۔ کیوں کہ آپ کو زیادہ تر ووٹ انہی وڈیروں اور بدمعاشوں کی وجہ سے ملتا ہے۔
میرا دوسراسوال وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ہے۔ وہ کئی ٹی وی انٹرویوز میں اقلیت کو تحفظ دینے کا راگ الاپ چکے ہیں، تو جناب وزیر اعظم صاحب! آپ نے کیوں چپ سادھ لی؟ شیری مزاری صاحبہ سے تو گلہ ہی نہیں۔ انہیں مظلوم انسانوں کی کم فکر اور اپنے بالوں پر ہر دوسرے دن ایک نیا قسم کا رنگ چڑھانے کی فکر زیادہ رہتی ہے۔
میرا سوال اپنے میڈیا سے بھی ہے۔ کہاں گئی وہ قسمیں اور وعدے جو ہم صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے کرتے تھے؟ آج میڈیا یہ نہیں دکھائے گا، کیوں کہ انہیں مسائل کو ہائی لائٹ کرنے سے ریٹنگ جو نہیں ملتی۔ میڈیا مالکان کو اپنی جیب اور بزنس سے غرض ہے، نہ کہ کسی کی آہ و بکا سے۔
اس طرح ایک سوال اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی ہے جو کنیڈین وزیراعظم جسٹن ٹریڈیو کے مسجد جانے اور ان کے ساتھ گھلنے ملنے پر واہ واہ تو کرتے ہیں، لیکن جب اپنے ملک کا وزیر اعظم ہولی وسکاھی منائے، تو پھر کافر کا فتویٰ دھڑلے سے دیا جاتا ہے۔
میرا سوال ریاست پاکستان کے تمام اداروں سے بھی ہے کہ دنیا کا کون سا قانون، کون سا مذہب ایک کم عمر لڑکی کو غوا کرکے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی بات کرتا ہے؟ ہاں، اگر لڑکی مذہب تبدیل بھی کردیتی ہے، تو جب تک وہ قانون کے مطابق 18 سال کی نہیں ہوتی،تو اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق اس کے ماں باپ کو حاصل ہے۔
میرا سوال اپنے حکومتی اور اپوزیشن اراکین سے بھی ہے۔ کیا انہیں شرم نہیں آتی کہ نیوزی لینڈ میں جب مسجد میں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا، تو وہاں کمیٹی بنی نہ جے آئی ٹی، نہ ٹوئٹر پر ایک دو الفاظ کی مذمت کرنے سے جان چھڑائی گئی۔ ایک فی صد سے کم مسلم آبادی کے ساتھ کیسے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے سر پر دوپٹا اوڑھ کر مسجد کے باہر خود پہرہ دیا۔ اپنے ٹیلی ویژن پر اذان نشر کرنے حکم دیا اوریہ پیغام دیا کہ ’’آپ ہم میں سے ہیں۔‘‘ ہمارے ملک میں اراکینِ پارلیمان سے لے کر بکریاں چرانے والے تک بھی اس پر واہ واہ کرتے ہیں، لیکن اگر ایسا واقعہ خدا نخواستہ ہمارے ملک میں ہو، تو پھر سب خاموش ہوتے ہیں۔
اقلیتوں کے ساتھ صرف اِک آدھ مذمتی بیانات کے علاہ کوئی وزیر اعظم ان مظلوموں کے پاس نہیں گیا۔ ان کے سر پر دستِ شفقت نہیں رکھا۔ انہیں نہیں کہا کہ ’’آپ ہم میں سے ہیں۔‘‘ یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ ایسا دوہرا معیار کیوں؟ کب تک ظلم کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ حکومتِ وقت نے اگر آج اس حوالہ سے اقدامات نہیں کیے، تو وہ وقت دور نہیں جب اقلیتوں کے معاملے میں پوری دنیا ہمارے خلاف ہوجائے گی۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔