انٹرویو: احمد زیب خان

فضل ربی راہیؔ سوات کی ایک ہمہ جہت علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ وہ بہ یک وقت ادیب، شاعر، صحافی اور ناشر ہیں۔ وہ کئی رسالوں اور اخبارات میں مدیر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ سوات کی تاریخ، آثارِ قدیمہ اور سیاحت پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان ہی موضوعات پر ملک کے مؤقر اخبارات و جرائد میں ایک طویل عرصہ تک باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں۔ کئی قومی اخبارات سے بہ طور کالم نگار منسلک رہے ہیں۔ شعیب سنز پبلشرز کے نام سے نشرو اشاعت کا ادارہ بھی چلاتے ہیں۔ ان سے پچھلے دنوں خصوصی ملاقات ہوئی جس کا احوال زیل میں درج کیا جاتا ہے ۔
ان سے پہلا سوال یہ پوچھا گیا کہ اپنی ابتدائی زندگی کے حوالے سے اپنے چاہنے والوں کو کچھ بتائیں، جس کے جواب میں راہیؔ صاحب یوں گویا ہوئے: ’’میری پیدائش مینگورہ میں ایک پختون یوسف زئی گھرانے میں ہوئی۔ میرے والد کا نام محمد شعیب ہے۔ ابتدائی تعلیم میں نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر3 مینگورہ سے حاصل کی۔ اسی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج (سیدو شریف) کا رُخ کیا۔ وہاں سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے اُردو پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے پشاور یونی ورسٹی سے کیا۔ میرے بچپن میں مینگورہ ایک صاف ستھرا شہر ہوا کرتا تھا۔ اس وقت آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، جس کی وجہ سے شہر میں شور اور فضائی آلودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مینگورہ کے جس محلے میں ہماری رہائش تھی، وہاں سے دریائے سوات ہمیں کافی قریب پڑتا تھا۔ اس لیے سکول سے چھٹی کے بعد گرمیوں میں ہم دوست اکھٹے ہوکر دریا پر چلے جاتے تھے اور اس کے صاف و شفاف اور ٹھنڈے پانی میں نہا کر محظوظ ہوتے تھے۔ بچپن میں مجھے پڑھنے کا بہت شوق رہا اور جو جیب خرچ مجھے گھر سے ملتا تھا، اس سے کتابیں خریدتا تھا۔ بعد ازاں بچوں کے لیے لکھنے کا آغاز کیا۔ یوں بچپن کے ابتدائی ایام تعلیم، کھیل کود اور لکھنے پڑھنے میں گزرے۔‘‘
میرا دوسرا سوال ان سے یہ تھا کہ آپ ادب میں کیوں اور کیسے آئے ، اس کے محرکات کیا تھے ؟ جواباً کہنے لگے: ’’جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے بچپن ہی سے کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ پانچویں جماعت میں تھا کہ مَیں نے اس وقت پشتو میں شائع ہونے والی منظوم کہانیاں اور داستانیں پڑھنا شروع کیں۔ چھٹی جماعت میں اُردو میں بچوں کی کہانیاں اور رسالے زیرِ مطالعہ رہے۔ آٹھویں جماعت میں پہلی بار بچوں کے لیے ایک کہانی لکھی جو ماہ نامہ ’’بچوں کی باجی‘‘ نامی رسالے میں شائع ہوئی۔ پھر روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے بچوں کے صفحہ ’’بچوں کا مشرق‘‘، روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے ’’بچوں کا جنگ‘‘ اور روزنامہ نوائے وقت کے بچوں کے صفحہ ’’پھول اور کلیاں‘‘ میں لکھنا شروع کیا۔ اس طرح بچوں کے مشہور رسالوں ’’تعلیم و تربیت‘‘، ’’ہمدرد نونہال‘‘، ’’جگنو‘‘ اور ماہ نامہ ’’آنکھ مچولی‘‘ وغیرہ میں بچوں کے لیے بے شمار کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ یوں جب میں اسکول کا طالب علم تھا، تو مطالعہ کرتے کرتے لکھنے کی طرف مائل ہوا۔ آغاز بچوں کے لیے لکھنے سے کیا تھا، اور جب کالج میں فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا، تو بچوں کے ادب کے علاوہ بڑوں کے ادب سے بھی شناسائی ہوئی۔ قومی اخبارات کے ادبی صفحات اور ادبی جریدوں میں بھی لکھتا رہا۔ پشتو اور اردو میں افسانے لکھے اور شاعری بھی کی۔ جہانزیب کالج میں کالج میگزین ’’ایلم‘‘ کا چار سال تک طالب علم مدیر رہا، جس کے دوران میں ایلم کے تین شمارے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ زمانۂ طالب علمی ہی میں ماہ نامہ ’’سوات‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا، جس میں سابق والئی سوات مرحوم کی زندگی کا آخری انٹرویو لیا۔ بعد ازاں ایک پشتو ادبی جریدہ ’’مینہ‘‘ کے نام سے شائع کیا جس کے کئی شمارے منظر عام پر آئے، لیکن پھر بوجوہ اس کی اشاعت بند ہوئی۔ چند سال قبل ماہ نامہ ’’شعور‘‘ کے نام سے ایک نیوز میگزین کا اجرا کیا جو کامیابی سے شائع ہوتا رہا۔ ادب اور صحافت میں آنے کا بنیادی مقصد اپنی مادری زبان پشتو اور قومی زبان اردو کی خدمت ہے اور اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے علاقے اور لوگوں کے مسائل میڈیا کے ذریعے اربابِ اقتدار تک پہنچانا ہے۔‘‘
جب ان سے کہا گیا کہ اپنی نثری کتابوں کے حوالے سے بھی ہمیں آگاہ کیجیے، تو کہنے لگے کہ ’’میری پہلی کتاب ’’سوات تاریخ کے آئینے میں‘‘ شائع ہوئی۔ اس میں سوات کی قدیم و جدید تاریخ کا تذکرہ ہے۔ جب یہ کتاب شائع ہوئی، تو اس وقت میں کالج کا طالب علم تھا۔ میری دوسری کتاب ’’سوات، سیاحوں کی جنت‘‘ کے نام سے زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوئی جو سوات کی تاریخ، تہذیب اور سیاحت کا ایک جامع منظر نامہ ہے۔ تیسری کتاب ’’ریاستِ سوات، تاریخ کا ایک ورق‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر جلوہ گرہوئی۔ یہ کتاب ریاستِ سوات کے نظم و نسق اور انتظامِ حکومت کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ چوتھی کتاب ’’اور سوات جلتا رہا‘‘ کے نام سے چھپی ہے جس میں سوات میں حالیہ شورش کے دوران میں ہونے والے واقعات کا چشم دید تذکرہ ہے۔ پانچویں کتاب ’’منزل بہ منزل‘‘ کے نام سے دبئی اور یورپ کے سفرنامے ہیں۔ چھٹی کتاب ’’وادئ مینگورہ، مسائل، حل اور تجاویز‘‘ ہے جس میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے کہ مینگورہ کو ایک مثالی شہر کیسے بنایا جاسکتا ہے اور اس کے گوناگوں مسائل کا جامع حل کیا ہوسکتا ہے؟ ساتویں کتاب ’’سوات میں شورش: تنازعہ کا تصفیہ اور قیامِ امن‘‘ کے نام سے تبسم مجید کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ ’’میں ہوں ملالہ!‘‘ کے نام سے ملالہ یوسف زئ کی انگریزی کتاب کا اُردو ترجمہ کیا ہے جو زیرِ اشاعت ہے۔ آج کل ضیاء الدین یوسف زئ کی انگریزی کتاب "Let Her Fly” کا اُردو ترجمہ ’’اُسے پرواز کرنے دیں‘‘ کے نام سے کر رہا ہوں جس کے اب تک متعدد باب ترجمہ کرچکا ہوں۔ دیگر تصانیف میں ’’سوات میں علم و ادب کا ارتقا‘‘ اور بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا مجموعہ ’’شبنمی قطرے‘‘ کے نام سے اشاعت کے لیے تیار ہیں۔ ان سب تصانیف و تراجم کے علاوہ میرے پشتو افسانے، ادبی تنقید سے متعلقہ مضامین اور شائع ہونے والے کالموں پر مشتمل کئی کتابیں تیاری کے مراحل میں ہیں۔ سوات میں شورش کے دوران میں، مَیں روزنامہ ’’آزادی‘‘ سوات؍ اسلام آباد کا سینئر ایڈیٹر تھا، اُس وقت میں اس کا ادارتی صفحہ ایڈیٹ کرتا تھا۔ اس دوران میں، مَیں نے اخبار میں جو اداریے لکھے تھے، وہ کتابی شکل میں ’’المیۂ سوات‘‘ (اخباری کالموں اور اداریوں کے تناظر میں) کے نام سے اکھٹے کیے ہیں جنھیں مناسب وقت پر شائع کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘
ایک سوال ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا آپ نثر کے علاوہ شاعری بھی کرتے ہیں؟جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ زمانۂ طالب علمی میں اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے ۔ اردو شاعری کا ایک مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے۔
ان سے ان کی شاہکار تصنیف ’’سوات سیاحوں کی جنت‘‘پر روشنی ڈالنے کا کہا گیا، تو جواباً کہنے لگے کہ’’سوات، سیاحوں کی جنت‘‘ مَیں نے ایک ضرورت کے تحت لکھی تھی۔ غالباً اس کی پہلی اشاعت 2000ء میں ہوئی تھی۔ اس وقت سوات کے حالات بہت اچھے تھے۔ ملک بھر سے سیاح بڑی تعداد میں سوات آتے تھے۔ سوات میں سیاحتی مقامات پر مشتمل کوئی معلوماتی کتابچہ یا کتاب موجود نہیں تھی، اس لیے مَیں نے سوات آنے والے سیاحوں کی رہنمائی کے لیے یہ کتاب لکھی تھی۔ یہ نہ صرف ایک سیاحتی گائیڈ ہے بلکہ اس میں سوات کی تاریخ، تہذیب اور آثارِ قدیمہ کے بارے میں مفصل معلومات موجود ہیں جن کی مدد سے سوات آنے والے سیاح نہ صرف سیاحتی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے وہ سوات کی قدیم تاریخی اہمیت سے بھی آگاہ ہوسکتے ہیں۔‘‘
پوچھا گیا کہ جب آپ نے اردو میں لکھنا شروع کیا، تو آپ کو کن مسائل کا سامنا تھا، کیوں کہ آپ پشتون سوسائٹی سے تعلق رکھتے ہیں؟ کہنے لگے، ’’جس وقت میں نے اردو میں لکھنا شروع کیا تھا، اس وقت سوشل میڈیا کا کوئی وجود نہیں تھا۔ انٹرنیٹ اورکمپیوٹر بھی عام نہیں تھے۔ پاکستان میں چند قومی اخبارات کی اجارہ داری تھی۔ ان میں کسی کے مضمون کا چھپ جانا ایک بڑا اور غیرمعمولی قسم کا کام ہوتا تھا۔ ان اخبارات پر بھی مخصوص لکھاریوں، ادیبوں اور صحافیوں کا قبضہ تھا۔ کسی نئے لکھاری کے لیے ان اخبارات و جرائد میں لکھنا اور اپنے لیے جگہ بنانا بہت مشکل تھا۔ میرا تعلق چوں کہ مراکز سے دور ایک دور افتادہ اور قدرے پس ماندہ علاقے سوات سے تھا، اس لیے میرے لیے ان اخبارات و جرائد میں لکھنا کافی مشکل تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس وقت سوات میں کوئی ایسا سینئر ادیب یا صحافی بھی موجود نہیں تھا جس سے میں رہنمائی حاصل کرتا یا لکھنے میں وہ میری اصلاح کرسکتا۔ ایسے حالات میں، مَیں نے لکھنا شروع کیا۔ پہلے پہل تو میرے مضامین کو کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی، لیکن سوات سیاحتی اور تاریخی طور پر ایک اہم علاقہ تو تھا ہی، اس لیے جب میں نے سوات کی تاریخ، سیاحت اور آثارِ قدیمہ کے بارے میں لکھنا شروع کیا، تو میرے مضامین روزنامہ ’’جنگ‘‘، ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’مشرق‘‘ وغیرہ میں نمایاں انداز میں شائع ہونا شروع ہوگئے۔ سوات کی سیاحت کے حوالے سے میرے مضامین کی اشاعت کا ایک طویل سلسلہ ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ (کراچی) اور ماہ نامہ ’’رابطہ‘‘ کراچی میں بھی شائع ہوتا رہا۔ جب مَیں نے ان اخبارات و رسائل میں اپنی پہچان پیدا کی، تو پھر میں نے سیاسی مضامین پر بھی قلم اٹھانا شروع کیا اور پھر ان اخبارات کے ادارتی صفحات پر میرے مضامین شائع ہونا شروع ہوگئے۔ بعد ازاں روزنامہ ’’جنگ‘‘ (لندن)، نئی بات (لاہور) اور روزنامہ ’’آزادی‘‘ سوات؍ اسلام آباد میں ایک طویل عرصے تک میرے کالم شائع ہوتے رہے۔ پشتون سوسائٹی کی وجہ سے مجھے پہلے پہل زبان کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا لیکن جب میں نے خوب مطالعہ کیا اور لکھنے کی ریاضت جاری رکھی تو پھر ایک وقت ایسا آگیا کہ میرے مضامین مذکورہ اخبارات و رسائل کی ضرورت بن گئے ۔
ایک سوال کے جواب میں راہی صاحب کا کہنا تھا کہ پشتون سوسائٹی کی وجہ سے مجھے پہلے پہل زبان کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا، لیکن جب مَیں نے خوب مطالعہ کیا اور لکھنے کی ریاضت جاری رکھی، تو پھر ایک وقت ایسا آگیا کہ میرے مضامین مذکورہ اخبارات و رسائل کی ضرورت بن گئے۔
پوچھا گیا کہ آپ کو نثری اصناف میں کون سی صنف پسند ہے اور کیوں؟ جواباً کہنے لگے: ’’مجھے تمام نثری اصناف پسند ہیں، بشرط یہ کہ ان میں اعلیٰ معیار کا خیال رکھا گیا ہو۔ ناول، افسانہ اور سفرنامہ میری پسندیدہ اصناف ہیں۔ مجھے معیاری طنز و مزاح سے بھی دل چسپی رہی ہے۔‘‘
ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ جسے آپ کبھی بھول نہیں پا ئیں گے ؟اس کے جواب میں کہنے لگے کہ زندگی میں بہت سے ایسے واقعات عموماً رونما ہوتے رہتے ہیں جو انسان کے ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں۔ میری زندگی میں بھی ناقابل فراموش واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، لیکن میں انھیں پردۂ اخفا میں رکھنا پسند کروں گا۔ ہاں! اگر زندگی نے وفا کی تو اپنی خودنوشت ضرور لکھوں گا جس میں ان واقعات کا تفصیلی تذکرہ لازماً ہوگا۔
2009ء کے حالات کے تناظر میں پوچھا گیا کہ آپ سوات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ تو کہنے لگے: ’’جب 1917ء میں ریاستِ سوات وجود میں لائی گئی، تو سوات قبائلی طرزِ زندگی سے جدید زندگی میں داخل ہوگیا تھا۔ سوات میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جسے ’’پختو کا دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق نظام رائج تھا۔ کوئی منظم حکومت وجود نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے قبائلی دشمنیاں اور اختلافات عروج پر تھے۔ لیکن جدید ریاست کے بانی میاں گل عبد الودود نے قبائلی معاشرہ میں رائج منفی روایات اور لوگوں کی باہمی چپقلشیں دور کر دیں۔ انھوں نے ریاست میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے سوات ایک نہایت پُرامن علاقہ بن گیا۔ ان کے بعد جب 12 دسمبر 1949ء کو ان کے بیٹے اور ولی عہد میاں گل عبد الحق جہانزیب نے ریاست کی باگ ڈور سنبھالی، تو انھوں نے سوات کو حقیقی معنوں میں ایک جدید فلاحی ریاست کی طرف لے جانا شروع کیا۔ انھوں نے پورے سوات میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا، ہسپتال اور سڑکیں تعمیر کیں، اور سوات کو ایک مضبوط اور منظم انفراسٹرکچر دیا۔ لیکن جب ریاستِ سوات 28 جولائی 1969ء کو پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم ہوئی، تو سوات اور اہلِ سوات کی آزمائش شروع ہوگئی۔ عوام کے مسائل میں اضافہ ہونے لگا، اور جو لوگ ایک مثالی ریاست کے قوانین اور انصاف کے عادی تھے، وہ عدالتوں میں رُلنے لگے۔ سوات کے مثالی انفراسٹرکچر کی حفاظت نہیں کی گئی، بلکہ ہر آنے والا دن سوات اور اہلِ سوات کے لیے نت نئے مسائل لے کر طلوع ہونے لگا۔ سڑکوں کی حالت ابتر ہوتی گئی۔ سیاحتی سہولتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ امن و امان کی صورتِ حال بھی بہتر نہ رہی۔ سوات کا مرکزی شہر مینگورہ شور، آلودگی اور گندگی کا ڈھیر بنتا گیا۔ ریاستی دور میں ایک سال کے دوران میں کوئی ایک آدھ قتل یا چوری کا واقعہ رپورٹ ہوتا تھا لیکن پاکستان میں شامل ہونے کے بعد یہ واقعات درجنوں اور سیکڑوں میں رونما ہونے لگے ۔ عوام میں مایوسی اور بد دلی پھیلتی گئی۔ یہاں پاٹا ریگولیشن کے نام سے انتظامی امور چلائے جانے لگے، جن میں اہلِ سوات پاکستان میں رائج بعض آئینی حقوق سے محروم رکھے گئے۔ نتیجے میں عوام میں مایوسی اور بددلی آخری حدود کو چھونے لگی۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب 18 جولائی 1989ء میں مولانا صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے نام سے ملاکنڈ ڈویژن میں شریعت کے نفاذ کے لیے تحریک شروع کی، تو یہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں امن و امان کی مجموعی صورتِ حال خراب کرنے کا آغاز تھا۔ کیوں اس تحریک کی سرگرمیوں کا بڑا مرکز سوات بن گیا تھا۔ بعد ازاں ان کے داماد ملا فضل اللہ نے سوات اور اہلِ سوات کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ کوئی اتنی پرانی بات نہیں ہے۔ اس دوران میں رونما ہونے والے خونیں واقعات اب بھی اہلِ سوات کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ اس تمام تر صورتِ حال میں افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ جب سوات میں بدامنی اور لاقانونیت پھیل رہی تھی، تو مقامی انتظامیہ باقاعدہ موجود اور فعال تھی، سکیورٹی ادارے اور حساس ایجنسیاں وجود رکھتی تھیں، لیکن ملا فضل اللہ اور اس کے حامیوں کی شدت پسندی اور دہشت گردی کو بروقت نہیں روکا گیا، بلکہ یوں لگتا تھا جیسے بعض ریاستی ادارے کسی منصوبہ بندی کے تحت سوات میں طالبانائزیشن پیدا کرنا اور پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے حالات کو اس نہج تک پہنچایا گیا کہ فوجی آپریشن کے دوران میں سوات سے اٹھارہ بیس لاکھ لوگوں کو بے گھر کرکے آئی ڈی پیز بننے پر مجبور کردیا گیا۔ اِس وقت اگرچہ بہ ظاہر سوات میں امن قائم کیا گیا ہے، لیکن اب سوات وہ پرانا سوات نہیں رہا ہے۔ سوات کے جو لوگ آئی ڈی پیز بنے تھے، اور تین چار مہینوں کے بعد جب وہ واپس سوات اپنے گھروں کو لوٹے، تو ان میں بہت سی منفی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں۔ سوات کے لوگ نسل در نسل ایک خاص قسم کے یوسف زئی پختون روایات پر کاربند تھے، لیکن حالیہ شورش نے ان سے وہ روایات چھین لی ہیں۔ ان میں بعض ایسی خامیاں پیدا ہوگئی ہیں، جو ناقابلِ رشک ہیں۔ لالچ، بغض، عناد اور پیسوں کی ہوس نے ان میں گھر کرلیا ہے۔ برداشت، رواداری اور مہمان نوازی جیسی صفات ان میں بہت کم رہ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ مذکورہ خامیوں سمیت سوات میں مستقل طور پر رہائش پزیر ہوئے ہیں جس نے ہمارے روایتی سواتی معاشرے کی مثبت اقدار کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سکیورٹی اداروں نے امن کے نام پر لوگوں کے ساتھ جو ناروا اور نامناسب سلوک روا رکھا ہے، اس نے بھی عام لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ بہر حال یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر اس مختصر انٹرویو میں بات کرنا مناسب نہیں، بس میں یہ کہوں گا کہ 2009ء کے حالات کے تناظر میں مثبت تبدیلیاں کم اور منفی زیادہ آئی ہیں۔‘‘
انہوں نے جیسے ہی توقف کیا تو ان سے پوچھا گیا کہ آنے والے وقت میں آپ کی نئی کتاب کی تخلیق ممکن ہے؟ انہوں نے جوابا کہا کہ ’’کسی ادیب، شاعر یا صحافی کا تخلیقی عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی ادبی یا صحافتی سرگرمی میں مصروف رہتا ہے۔ چنانچہ میرا بھی زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے ہی میں گزرتا ہے۔ گذشتہ کسی سوال میں، مَیں نے تفصیل سے عرض کیا ہے کہ میری آنے والی تصانیف کون سی ہیں۔ ان میں میرے کالموں کے مجموعے ، اردو شاعری کا مجموعہ، انگریزی سے تراجم پر مشتمل کچھ کتابیں اور ادبی موضوعات سے پیوستہ کچھ تصانیف شامل ہیں۔ تخلیقی عمل سے قطع نظر میرا زیادہ وقت میرے اشاعتی ادارے سے شائع ہونے والی کتابوں کی اشاعت میں صرف ہوتا ہے۔ شعیب سنز پبلشرز کے نام سے جو اشاعتی ادارہ عشروں قبل میں نے قائم کیا تھا، اب تک اس کے زیرِاہتمام ڈھائی سو سے زیادہ اردو، پشتو اور انگریزی زبانوں کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ میں زیادہ تر اس ادارے سے شائع ہونے والی کتابوں کی ایڈیٹنگ اور تزئین و اشاعت میں مصروف رہتا ہوں۔‘‘
ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ ادب اور صحافت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ جواب یہ دیا گیا کہ، ’’ادب ایک آفاقی شعبہ ہے جب کہ صحافت کا تعلق کرنٹ آفیئرز سے ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب جب تخلیق کیا جاتا ہے، تو اس میں معاشرہ کے خدو خال اور انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کی جاتی ہے، لیکن صحافت میں رواں حالات و واقعات کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے مقامی، قومی اور بین الاقوامی حالات پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں ادب و صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا تھا، لیکن صحافت نے اب سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے بہت ترقی کی ہے اور اس کی پرانی ہیئت تیزی سے بدل رہی ہے۔ اب ہمیں دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور سیاست کی بدلتی ہوئی صورت حال کی خبر لمحوں میں ملتی ہے۔ اس لیے دونوں شعبے تکنیکی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم ادب اور صحافت کا آپس میں تعلق یا رشتہ بس اتنا سا بنتا ہے کہ دونوں کا واسطہ لکھنے لکھانے سے ہے اور زبان و بیان حوالہ سے صحافت میں ادب سے مدد لی جاسکتی ہے
آخری سوال یہ پوچھا گیا کہ کیا ایک بہترین ادیب کے لیے صحافی ہونا ضروری ہے؟ جواباً کہا گیا کہ ایک بہترین ادیب کے لیے صحافی ہونا ضروری نہیں، البتہ ایک بہترین صحافی کے لیے ادب سے شناسائی ناگزیر ہے۔ کیوں کہ اس سے صحافی کو زبان و بیان پر زیادہ عبور حاصل ہو جاتا ہے۔ ہم اگر برصغیر میں ماضی کے اساتذہ صحافیوں پر نظر ڈالیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس وقت جو صحافی زیادہ مقبول تھے، ان کا ادب سے بھی رشتہ اٹوٹ تھا۔ اس کی مثال ہمیں مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزادؔ، حسرت موہانیؔ اور قریبی ادوار میں شورش کاشمیری، فیض احمد فیضؔ اور ندیم احمد قاسمیؔ وغیرہ جیسی ادبی و صحافتی شخصیتوں کی شکل میں ملتی ہے۔ جن صحافیوں کا تعلق ادب سے بھی ہوتا ہے، وہ اپنے شعبے میں دوسروں کی نسبت زیادہ نام کما سکتے ہیں۔‘‘

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔