مَیں نے مرحوم پروفیسر سیف اللہ صاحب سے دو باتیں سیکھی ہیں۔ گرچہ اپنی تحاریر میں اک آدھ بار ان کا حوالہ دے چکا ہوں، مگر سرسری سا۔ اس لیے آج کی نشست میں اُن باتوں پر مفصل روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ تاکہ مرحوم کو پڑھنے والے جان سکیں کہ انہیں داغِ مفارقت دینے والا راقم جیسا معمولی لکھاری نہیں تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کے گزر جانے کے بعد وہ کسی نامعلوم شاعر کا کہا رہ رہ کے یاد آ رہا ہے کہ
مر جائے تو بڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت
زندہ ہو، تو جینے کی سزا دیتی ہے دنیا
پہلی بات جو مَیں نے ان سے سیکھی، یہ ہے کہ ’’ہر کوئی شکایت کے لائق نہیں ہوتا۔ شکایت صرف اُس شخص سے کرنی چاہیے، جو اِس پنج حرفی لفظ کا مفہوم بھی جانتا ہو۔‘‘
مجھے آج بھی سنہ 2013ء کی وہ شام یاد ہے، جب مَیں اُس وقت ایک کرنل موصوف کی ’’کِرپا‘‘ سے صحافتی بے روزگاری کا پورا ایک سال گزارنے کے بعد ایک اور علاقائی اخبار میں مدیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اس شام پہلی بار میری اخبار کے مالک کے ساتھ ایک ایسے مضمون چھاپنے پر اَن بن ہوئی جو بقول اُن کے اخبار کی ’’پالیسی‘‘کے خلاف تھا۔ اب اخبار کی پالیسی کیا تھی؟ یہ مجھ سمیت دیگر مدیر حضرات بھی نہیں جانتے تھے۔ بس جو چیز ’’مملکتِ خداداد‘‘ کی اصل طاقتوں کے طبعِ نازک پر ناگوار گزرتی، وہ اخبار کی پالیسی کے بھی خلاف ہوتی۔ ایسے میں ہم کہاں نچلے بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ صحافت کے میدانِ خارزار میں اترنے سے پہلے استادِ محترم فضل ربی راہیؔ صاحب کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ اس طرح پیر و مرشد کے کچھ ازکارِ رفتہ ٹائپ اقوال پلے باندھے تھے، جیسے ’’سب سے افضل جہاد، جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔‘‘ جواباً ہم بھی بگڑ گئے اور ایک عدد فلمی ڈائیلاگ مارنے کی سعی کی کہ ’’پیٹ پر پتھر باندھ لیں گے، مگر اصولوں پر سودے بازی نہیں کریں گے۔‘‘ اتنا کہنا تھا کہ دوسری طرف سے وہ گل پاشی ہوئی کہ الامان و الحفیظ! ہم تو ٹھہرے ’’اُوور سینسی ٹیو ٹائپ‘‘ بندے۔ عزت پر بن آئی، تو چپ چاپ وہاں سے لمبے بنے۔ شعیب سنز کا راستہ ناپتے ’’چیف صاحب‘‘ کا ایک ایک لفظ ذہن پر ہتھوڑا برستے محسوس ہورہا تھا۔ اُس سمے کئی بار آنکھیں بھر آئیں، مگر بھرے بازار میں آنسو ٹپکانا کچھ نامناسب سا لگا۔ اسی کشمکش میں شعیب سنز پہنچ گیا، جہاں دور ہی سے مرحوم پروفیسر سیف اللہ خان صاحب کو مخصوص انداز میں بیٹھے پایا۔ وہ جب صاحبِ فراش نہیں تھے، تو اُس وقت جی ٹی روڈ پر سالوں سے قائم اُس چھوٹی سی کتابوں کی دکان کو سہ پہر تشریف لے آتے۔ سفید جامہ زیبِ تن کیے، چارباغ کی تیار کردہ خصوصی ٹوپی سر پر رکھے، شعیب سنز کے منیجر سجاد احمد کے کاؤنٹر کے بالکل سامنے بیٹھے ہوتے۔ ان کے بیٹھنے کا انداز بھی منفرد ہوتا۔ ایک ٹانگ کے اوپر دوسری رکھ کر دیگر روائتی پشتون بڑے بوڑھوں کی طرح پنجہ کو آہستہ آہستہ ہلاتے اور دائیں بائیں جوان لڑکوں کو بٹھا کر زاویہ کے اشفاق احمد کی طرح ان کے ساتھ اپنے تجربات کی روشنی میں کلاس لیا کرتے۔ اُس شام جیسے ہی مَیں ’’شعیب سنز‘‘ پہنچا۔ پروفیسر صاحب کسی کتاب یا مجلہ کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ مجھ پر نظر پڑی، تو آواز دی، ’’برخوردار! ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔‘‘ (اس مصرعہ کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے) مَیں چوں کہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، جانے جواباً ایسا کیا کہہ دیا کہ وہ عینک اتار کر اپنی نشست سے اُٹھے اور میرے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے پوچھا: مسئلہ کیا ہے، کیوں بُجھے بُجھے سے ہو؟ مَیں نے چیف صاحب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ان کے گوش گزار کیا۔ وہ جہاں دیدہ تھے۔ مجھ سے بہتر ان کو جانتے تھے۔ انہوں نے اُس وقت میری دلجوئی کے لیے جو ضرب المثل جملہ کہا، بخدا! میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ مسکراتے ہوئے کہا، ’’برخوردار! آپ جس حضرت سے شکایت کر رہے تھے، کیا وہ شکایت کے معنی جانتے بھی تھے؟‘‘ وہ دن اور آج کا دِن، مَیں نے پھر کبھی کسی ایسے شخص سے شکایت نہیں کی، جو اس پنج حرفی لفظ کے مفہوم سے ناواقف ہو۔ یعنی بقول حضرتِ جون ایلیاؔ کے
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
لگے ہاتھوں اب مرحوم سے سیکھا گیا دوسرا سبق ملاحظہ ہو،جو پہلے والے سے زیادہ مؤثر ہے۔ ایک دفعہ ان کے ایک ’’ہمدمِ دیرینہ‘‘ نے ان کے خلاف ایک تحریر لکھ ڈالی۔ تحریر میں ان کو بڑی حقارت سے مخاطب کیا گیا۔ ایڈیٹنگ کے وقت مجھے محسوس ہوا کہ راقم صاحب کچھ زیادہ ہی ’’پرسنل‘‘ ہونے جا رہے ہیں، اس لیے مَیں نے کچھ جملوں کے الفاظ تبدیل کیے اور انہیں شائستگی کے دائرہ میں لے آیا۔ صبح اخبار کے صفحات الٹتے پلٹے نہ چاہتے ہوئے بھی اُس تحریر پر نظر پڑی۔ ایک قاری کی حیثیت سے اچھی خاصی ایڈیٹنگ کے بعد بھی وہ تحریر میری طبیعت پر ناگوار گزری۔ ابھی تحریر ختم کیے اک آدھ لمحہ ہی گزرا تھا کہ پروفیسر صاحب بھی اخبار سمیت شعیب سنز قدم رنجہ فرما گئے۔ آتے ہی روائتی گرمجوشی سے مجھے مخاطب کیا، ’’کہو برخوردار! کیسے ہو؟‘‘ مَیں نے بھی روائتی گرم جوشی دکھانے کی کوشش کی:
’مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘
اپنی خفت مٹانے کے لیے مَیں نے جیسے تیسے ہمت کرکے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا، سر! آج ’’حضرتِ فُلاں‘‘ کی تحریر پڑھی ہے؟ جواباً لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اپنے مخصوص اور تاکیدی لہجے میں ایک اور ضرب المثل ٹائپ بات کہہ دی: ’’برخوردار، تنقید کی مثال اُس ٹارچ کی سی ہوتی ہے، جسے کوئی گھپ اندھیرے میں آپ کے ہاتھ میں تھما دے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ ٹارچ روشن کرکے اپنا سفر جاری رکھیں، یا پھر اُسے تھمانے والے کے سر پر دے ماریں۔‘‘
وہ دن اور آج کا دن، جو بھی اندھیرے میں ٹارچ تھماتا ہے، اُسے روشن کرکے سفر جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
قارئین، حق مغفرت کرے، اُس آزاد مرد کی شخصیت شیشے کے گلاس جیسی تھی، جس میں اگر پانی ڈالا جائے، تو پانی نظر آتا ہے اور دودھ ڈالا جائے، تو دودھ۔ وہ کس پائے کے اصول پسند، دیانت دار اور ایمان دار انسان تھے، شائد اس حوالہ سے انہیں مجھ جیسوں کے سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں، اتنا ضرور کہوں گا کہ پوری زندگی ایسے دفاتر میں گزاری جہاں ریٹائرمنٹ تک پندرہ بیس کروڑ کمانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کا جنازہ ایک کرائے کے گھر سے اُٹھا۔ مَیں اِسے مرحوم کی سب سے بڑی کامیابی مانتا ہوں کہ جاتے جاتے وہ دو ایسے دیپ (نعیم اللہ اور نجیب اللہ) ضرور روشن کرگئے ہیں، جو معاشرہ پر بوجھ نہیں اور جن سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں۔ مجھ ایسوں کو بھی ذکر شدہ اسباق کی شکل میں زندگی گزارنے کا فن سکھا گئے ہیں۔ جاتے جاتے علامہ محمد اقبالؔ کے مرثیہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد‘‘ سے اِن آخری چھے مصرعوں کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔