جب اندلس کے امیر کو معلوم ہوا کہ ’’ابو الفرج اصفہانی‘‘ اپنی مشہور ادبی کتاب ’’الاغانی‘‘ لکھ رہے ہیں، تو اس نے اندلس سے ایک نسخے کی قیمت کے طور پر ایک ہزار دینار بھیج دیے اور کہا کہ جوں ہی کتاب مکمل ہو، مجھے بھیج دی جائے۔ مسلمان اس وقت تعلیم و تعلّم کے اتنے قدردان تھے کہ اس ادبی ذوق اور علمی روح کو زندہ رکھنے کے لیے تمام عالمِ اسلام میں جگہ جگہ کتب خانے بنائے گئے تھے۔ اس وقت کتب خانوں کے لیے الگ اور مستقل عمارتیں تعمیر ہوتی تھیں، جو متعدد ہالز پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔ ہر ہال علم کے ایک خاص شعبے کے لیے مخصوص ہوا کرتا تھا۔ مثلاً ادب کی کتابوں کا ہال، فقہ کی کتابوں کا ہال، طب کی کتابوں کا ہال یعنی مختلف علوم کی کتابیں ایک الگ ہال میں رکھی جاتی تھیں۔ وہاں ایسے ہال بھی ہوتے تھے جن میں وہاں کے طلبہ علمی بحث ومباحثہ کیا کرتے تھے۔ الغرض، اس وقت لائبریریوں کے لیے عظیم الشان عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔ ہر جگہ سے لوگ یہاں آتے، قیام کرتے اور علوم حاصل کرتے تھے۔ یہاں انہیں ہر قسم کی کتابیں بکثرت و سہولت فراہم کی جاتیں اور اگر کوئی غریب طالب علم آجاتا اور حصولِ علم اس کا نصب العین ہوتا، تو اسے سٹیشنری کے ساتھ ساتھ اخراجات کے لیے اچھی خاصی رقم بھی دی جاتی تھی۔
عام لائبریریوں میں ملازم رکھے جاتے تھے، جن کے بڑے افسر کو ’’خازن مکتبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس عہدے پر ہمیشہ وقت کے مشہور علما میں سے کسی ایک کو مقرر کیا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ کچھ لوگ ترجمہ کا کام کرتے جو غیر عربی تصنیفات کو عربی میں منتقل کرتے تھے۔ ان مترجمین کی قدر اس حد تک کی جاتی تھی کہ خلیفہ ہارون الرشید کاتب ’’ابنِ اسحاق‘‘ کو ہر اس کتاب کا سونے سے تول کر معاوضہ دیا کرتا تھا جو وہ غیر عربی زبان سے عربی میں منتقل کرتا تھا۔
عزیزانِ من، عوام سے لے کر امرا تک سارے لوگ علوم و فنون کے قدردان تھے۔ تب ہی تو اسے مسلمانوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ اُس وقت عالمِ اسلام میں کوئی شہر، کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جس میں لائبریری نہیں تھی۔ مثلاً ’’دارالحکمت‘‘ قاہرہ جسے حاکم بامر اللہ نے قائم کیا تھا۔ اس میں اس قدر عظیم الشان ذخیرۂ کتب جمع کیا گیا تھا، جو اس سے پہلے کسی بادشاہ نے جمع نہیں کیا تھا۔ اس لائبریری کے 40 حصے تھے، ہر حصہ 18 ہزار کتابوں پر مشتمل تھا، جن میں قدیم علوم پر ہر قسم کی کتابیں تھیں اور وہاں پر علم حاصل کرنے والوں کو اس لائبریری کی جانب سے قلم، دوات اور ہر طرح کی روشنائی اور کاغذ مہیا کیے جاتے تھے۔ ایسی ہی لائبریریوں میں ایک بغداد کی ’’بیت الحکمت‘‘ تھی، جسے خلیفہ ہارون الرشید نے قائم کیا اور مامون الرشید کے زمانے میں بامِ عروج کو پہنچی۔ یہ صرف لائبریری نہیں بلکہ ایک عظیم یونیورسٹی تھی جس میں محققین، مفکرین، مطالعہ کرنے والے اور بحث و استفادہ کرنے والے سب ہی جمع رہتے تھے۔ اس میں ہر وقت مترجمین ان کتابوں کے ترجموں میں مصروف رہتے جو ہارون الرشید اور مامون الرشید نے انقرہ، عموریہ اور قبرص کی فتح کے بعد حاصل کی تھیں۔
ابنِ ندیم کہتے ہیں کہ مامون الرشید اور روم کے بادشاہ کے درمیان ایک وقت میں اس شرط پر صلح ہوئی تھی کہ وہ اپنے ہاں کی تمام کتابوں کے ترجمے کی اجازت دے گا اور ترجمہ وہ لوگ کریں گے، جنہیں مامون بھیجے گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور تمام رومن ذخیرۂ علم کو عربی زبان میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ تاریخ کی ایک زریں مثال ہے کہ ایک فاتح کی نظر میں فتح کی اس سے بڑی کوئی قیمت نہیں تھی کہ وہ علوم وفنون کو اپنی قوم کے افراد تک منتقل کر دے۔ اس کے علاوہ اندلس، طرابلس، دمشق، حجاز الغرض ساری عرب و عجم کی اسلامی دنیا اس وقت علوم و فنون کی کتابوں اور لائبریریوں سے مزین تھی۔
لیکن اس تذکرے سے ہم جس قدر خوش ہوتے ہیں، اس سے زیادہ ہمارے قلوب محزون و رنجیدہ ہوجایا کرتے ہیں، جب ہم یہ یاد کرتے ہیں کہ اس قیمتی سرمایے کا انجام کیا ہوا؟ کس بے دردی سے ان کتابوں کو دریابرد کیا گیا اور کس بے رحمی سے انہیں جلا دیا گیا؟ علم و دانش کی یہ وہ تباہی اور خسارہ ہے جسے قیامت تک پورا نہیں کیا جاسکتا۔ جب اَن پڑھ تاتاریوں کی تباہ کاریوں کا سیلاب بغداد میں داخل ہوا، تو سب سے پہلے انہوں نے کتب خانوں کا رُخ کیا اور جو کچھ بھی ملا، وہ دریائے دجلہ میں پھینکتے گئے جس سے تمام دریا کا پانی مہینوں تک ان کتابوں کی سیاہ روشنائی کی وجہ سے متغیر ہو کر بہتا رہا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ صلیبی جنگجوں میں صرف طرابلس میں 30 لاکھ کتابیں تباہ کی گئیں اور غرناطہ کے ایک میدان میں ایک دن میں 10 لاکھ کتابیں جلائی گئیں۔
عزیزانِ من، اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ معدنِ اسلام کے وہ ذخیرے کیسی بے دردی سے برباد کیے گئے، جس کے سبب آج تک مسلمان مسلسل نشیب میں جا رہے ہیں اور اہلِ مغرب فراز پر چڑھ رہے ہیں۔ کیوں کہ آج امریکہ، جاپان، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور اٹلی وغیرہ ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھی اور لکھی جارہی ہیں۔ بدقسمتی سے آج دنیا میں 28 سے زیادہ وہ ممالک جہاں کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں، ان میں سے ایک بھی اسلامی ملک نہیں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو 72 فیصد پاکستانی کتاب سے دوری اور صرف 27 فیصد کتب بینی کے شوقین ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ کتابوں کا وجود رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کا سبب بن گیا تھا یعنی لڑکیوں کو جہیز میں کتب خانے دیے جاتے تھے۔ چناں چہ ’’امام اسحاق بن راہویہ‘‘ نے ’’سلیمان بن عبداللہ‘‘ کی بیٹی سے شادی اس لیے کی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی کی جملہ تصانیف پر مشتمل لائبریری مل گئی تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی، وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کی منازل طے کرتی گئیں، لیکن جیسے ہی کتاب و علم سے رشتہ توڑا پستی اور ذلت نے انہیں گھیر لیا۔ ساتویں صدی سے تیرہویں صدی عیسوی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ غرناطہ، قرطبہ اور قاہرہ دنیا کے عظیم تاریخی اور علمی سرمایے تصور ہوتے تھے، لیکن آج علم و ادب سے دوری نے مسلمانوں سے ان کا وقار اور تخت تک چھین لیا ہے۔ بلآخر 1858ء میں جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا، تو انگریزوں نے لال قلعہ کے شاہی لائبریری سے بھی ہزاروں کتابیں لندن پہنچا دیں۔ آج بھی لندن میں انڈیا آفس لائبریری اور پیرس لائبریری میں مسلمانوں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ اس کربناک منظر کا ذکر علامہ محمد اقبال نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔