قدرت کی بے پناہ نیرنگیوں سے معمور وادئی کالام سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 96 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے۔ یہ پختہ سڑک کے ذریعے منگورہ سے ملی ہوئی ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 6886 فٹ ہے اور اس کی آبادی قریباً 60 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کی بلند ترین چوٹی "فلک سیر” کہلاتی ہے۔ جو چو بیس ہزار فٹ بلند ہے۔ یہ بلند پہاڑ سوات اور چترال کے درمیان ایک طرح کی قدرتی حد بندی بھی ہے۔ کالام کی سرحدیں دیر، چترال، گلگت، تانگیر اور انڈس کوہستان سے ملی ہوئی ہیں۔
کالام کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہزاروں سال قبل یہاں ایک خاندان آباد تھا جس کا نام "کال” بیان کیا جاتا ہے۔ کوہستانی زبان میں "لام” گاؤں کو کہتے ہیں۔ اس وجہ سے اس علاقے کا نام "کالام” یعنی "کال کا گاؤں” رکھا گیا۔ کال کی نسل کے لوگ آج بھی کالام میں موجود ہیں، اور انھیں "کالام خیل” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
کالام جدید سیاحتی سہولتوں اور اپنی بے انتہا خوب صورتی کی وجہ سے سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے خوب صورت بازار میں سیکڑوں دُکانیں ضروریاتِ زندگی کی تمام تر سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ منگورہ کے جنرل بس سٹینڈ سے کالام تک ہر وقت ویگن، فلائنگ کوچ اور ٹیکسی گاڑیاں چلتی ہیں۔ کالام جاتے ہوئے راستے میں دوسرے خوب صورت مقامات مدین اور بحرین آتے ہیں، جن سے آگے بڑھتے ہوئے سارے راستے پر پُرشور دریائے سوات کے سنگ سنگ سفر کرکے کالام پہنچا جا سکتا ہے۔ سیاحوں کے ٹھہرنے کے لیے کالام میں بہت سے خوب صورت اور پُرآسائش ہوٹل ہیں۔ سیکڑوں ہوٹلوں کی موجودگی کی وجہ سے کالام کو اگر "ہوٹلوں کا شہر” کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کالام جانے کے لیے بہترین موسم مئی سے اکتوبر تک ہے جب کہ نئے بیاہتے جوڑوں کے لیے ماہِ ستمبر سے اکتوبر کے آخر تک کا وقت آئیڈیل ہے۔

کالام کو ہوٹلوں کا شہر کہا جاسکتا ہے، کالام کے ایک ہوٹل کا کمرہ۔ (Photo: Dawn)

کالام سے پہاڑی راستوں کے ذریعے پیدل، براستہ اتروڑ دیر کوہستان اور کندیا کوہستان سے براستہ اشلوگا ہوتے ہوئے تانگیر، داریل، گلگت اور چترال تک بھی جایا جا سکتا ہے، جن پر زمانۂ قدیم میں مشہور سیاح "ہیون سانگ” اور "فاہیان” بھی گزرے تھے۔
کالام کے چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے ہیں جن کے بیچ میں وادئی کالام دلہن کے ماتھے پر سجے خوب صورت جھومر کا منظر پیش کرتی ہے۔ رنگ برنگ قدرتی پھولوں کے تختے، اخروٹ اور سیب کے جھومتے ہوئے درخت اور مکئی کے لہلہاتے کھیت خوب صورت منظر کشی کو جنم دیتے ہیں۔ دریا کا مدبھرا شور اور دھوپ کی تمازت میں چاندی کی مانند چمکتی برف، سب مل کر انسان کو مسحور کر دیتے ہیں اور دل کو ٹھنڈک اور دماغ کو فرحت و سرور بخش دیتے ہیں۔
یہ علاقہ دریائے سوات کے کنارے کنارے فطری مناظر کے لحاظ سے کاغان سے بہت زیادہ خوب صورت اور میدانوں کی شادابی کی وجہ سے "کشمیرِ ثانی” ہے۔ یہاں قدرتی جھیلیں ہیں، دریائے سوات سے ہر سُو نکلے ہوئے ندی نالے ہیں، سرسبز کھیتوں میں جا بہ جا خوب صورت پھول کِھلے ہوئے ہوتے ہیں، پہاڑوں پر برف کی رنگا رنگ چٹانیں نظر آتی ہیں، جن میں طرح طرح کے پھول اور پھلوں کے درخت و پودے ہیں۔ دور سے پہاڑوں پر برف کے چھوٹے چھوٹے گلیشیئرز کا سہانا منظر اور مانکیال پہاڑ کی 18750 فٹ بلند چوٹی پر سورج کا طلوع و غروب ہونا، رات کی خاموشی اور ستاروں کا جھرمٹ کالام کے وجدانی مناظر ہیں۔ گرمیوں میں یہاں مون سون ہواؤں کے اثرات نہیں ہوتے جس کے باعث یہاں کا موسم خشک اور معتدل رہتا ہے۔خاص کالام کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ دن کے وقت یہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور شام کے وقت یہ ہوائیں رُک جاتی ہیں۔ لہٰذا دن کے وقت گرمی اور رات کو زیادہ سردی کا قطعی احساس نہیں ہوتا۔
وادئی کالام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، زیریں وادی اور بالائی وادی۔ زیریں وادی دریائے سوات کے دائیں طرف واقع ہے، جہاں کالام کا قدیم گاؤں آباد ہے۔ کچے پکے مکان جن میں لکڑی کا کام نمایاں نظر آتا ہے، قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں۔ دریائے سوات کے بائیں طرف ایک پُررونق بازار ہے جس میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز باآسانی ملتی ہے۔ بازار میں ہروقت سیاحوں کا جمِ غفیر موجود رہتا ہے۔
دریائے سوات کے دائیں کنارے پر ایک قدیم مسجد ہے جس کی تعمیر میں زیادہ تر بھاری بھر کم لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اس کے مضبوط اور بڑے بڑے دیوہیکل شہتیر صدیوں پُرانے ہیں۔ یہ مسجد کافی بڑی ہے جس میں علاقے کے لوگ اور دُور دراز سے آئے ہوئے مہمان سیاح نماز ادا کرتے ہیں۔ باہر کے لوگوں کے لیے یہ مسجد نماز کے علاوہ اپنی منفرد طرزِ تعمیر اور غیر معمولی قدامت کی وجہ سے بھی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔
بالائی کالام دریائے سوات کے بائیں جانب ریت کے اونچے ڈھلوانی ٹیلوں کے اوپر "فلک سیر” پہاڑ کے دامن میں ایک بڑے میدان میں واقع ہے۔ جہاں جدید تعمیرات نے کالام کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ بالائی کالام میں ہر قسم کے سرکاری دفاتر، پولیس سٹیشن، ٹیلی فون ایکسچینج، ہسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر اور دیگر جدید عمارتیں واقع ہیں۔ یہاں کی رنگ برنگ جدید عمارتیں عجیب طرح کی سرخوشی کا باعث بنتی ہیں۔ یہاں پر واقع تمام ہوٹل ہر طرح کی جدید سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ بالائی کالام میں پی ٹی ڈی سی موٹل اور فرنٹئیر ہاؤس اپنی خوب صورت عمارتوں اور سرور افزا ماحول کی وجہ سے دیکھنے کے قابل ہیں۔ بالائی کالام کو "کَس” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہاں سے زیریں کالام کا نظارہ بہت دل کش، پُرکیف اور جاذبِ نظر ہے۔

وادئی سوات کی سب سے بلند ترین چوٹی "فلک سیر” (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

دریا کی دوسری طرف دریا سے نکلی ہوئی چھوٹی چھوٹی نہروں پر چارپائیاں اور میز و کرسیاں رکھ دی گئی ہیں جن پر سیاح ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے کھانا کھاتے اور چائے پیتے نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں بہت رونق اور گہما گہمی ہوتی ہے۔ یہیں پر دریا کے عین کنارے ایک وسیع رقبے میں سیاح دن کے وقت مختلف سرگرمیوں میں منہمک نظر آتے ہیں۔ اس جگہ کو "مینا بازار” کہا جاتا ہے۔ دن کے وقت اپنے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کو یہیں پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔
زیریں کالام کا ایک حسین منظر اس وادی کے دو دریاؤں کا پُرکشش سنگم ہے۔ یہاں دریائے اُتروڑ اور دریائے اُوشو آکر آپس میں ملتے ہیں، اس کے علاوہ قدرتی چشمے اور جھرنے بھی اس مقام پر آکر ملتے ہیں۔ دریائے سوات کا تند و تیز سلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ کالام کا پانی بہت سرد اور ہاتھوں کو سُن کر دینے والا ہے۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں، جو لذت اور تازگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں کی اجازت سے یہاں ٹراؤٹ مچھلیوں کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔
یہاں تین بڑے قبیلے قابل ذکر ہیں جو درہ خیل، نیلور اور جافلور کے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں کالام میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور اس معاملے میں کالام کو مختلف علاقائی زبانوں کا گڑھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں داشوی، گاؤری، توروالی، قاش قاری، اُشوجی، تانگیری، گوجری اور پشتو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ قومی زبان اردو بھی یہاں عام بولی اور سمجھی جاتی ہے اور جب مختلف زبانیں بولنے والے ملکی اور غیر ملکی مہمان سیاح یہاں آکر اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں، تو یہاں پر زبانوں کے بین الاقوامی میلہ لگنے کا سا گمان ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں آکر انسان ایک نئی تہذیب اور ثقافت سے آشنا ہو جاتا ہے۔
اس علاقہ کے لوگ ڈھیلے ڈھالے روایتی لباس زیب تن کرتے ہیں، جن میں خوب صورت اور مخصوص قسم کی گل کاری سے مزین لباس اور چاندی کے روایتی زیور میں ملبوس خواتین انسان کو قدیم زمانے کی یاد دلاتی ہیں، لیکن سیاحوں کی افراط کی وجہ سے یہ روایات اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہیں۔
کالام برف پوش چوٹیوں، گھنے چیڑ و دیار کے جنگلوں، بنفشہ، سیب، زیرہ اور مختلف پھلوں اور پھولوں کی ایک دل کش جلوہ گاہ ہے۔ یہاں دیار، فر، سپروس اور کائل کے درخت عام ہیں۔ یہاں بڑی بڑی چراگاہیں بھی ہیں جن میں موسمِ گرما میں بھیڑ بکریاں چرائی جاتی ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں خانہ بدوش لوگوں کی ہوتی ہیں جنھیں اَجڑ اور گوجر کہتے ہیں۔ تاہم مویشیوں کی زیادتی اور ان کی خوراک کی کمی کے باعث دوسرے مقامی لوگ بھی اپنے مال مویشی موسمِ گرما کے اوائل میں ان چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور موسمِ سرما کے شروع میں واپس لے آتے ہیں۔ یہاں قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جو حیاتیات (Botany) کے ماہرین کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ اگر اس سلسلے میں تحقیق کا آغاز کیا جائے، تو بہت سی ایسی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں ہاتھ آسکتی ہیں جو مختلف دوائیوں اور دیگر مفید کاموں میں مستعمل ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کا مؤجب بن سکتی ہیں۔
کالام خاص سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر گھنے جنگلات کا ایک وسیع سلسلہ ہے، جس میں سورج کی روشنی بہ مشکل چھن چھن کر آتی ہے۔ اِن وسیع و عریض جنگلات میں زیادہ تر شاہ بلوط، شیشم، صنوبر اور اخروٹ کے درخت پائے جاتے ہیں۔ جنگلات کا یہ سلسلہ اوشو اور مٹلتان تک پھیلا ہوا ہے۔
کالام میں کھیتی باڑی کا پیشہ عام ہے۔ یہاں کی پیداوار میں آلو، سیب اور اخروٹ خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آلو تو اتنا زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ اُسے پاکستان کے تمام علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ پھلوں میں یہاں کے سیب بہت زیادہ مشہور ہیں، جو اپنی مِٹھاس اور لذت میں منفرد ہیں۔
شہد اور تازہ پھل، کالام میں کڑھے ہوئے ملبوسات، شالیں، چاندی کے ظروف، ہاتھ کے بنے ہوئے کھیس، چادریں اور لکڑی کی منقش اشیا یہاں کے خاص تحفے ہیں۔  (فضل ربی راہیؔ کی کتاب “سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)