ہمارے شمالی علاقہ جات دنیا بھر میں اپنے حسن و دل نشینی اور عجائباتِ قدرت کے لحاظ سے مشہور بلکہ ضرب المثل ہیں اور اکثر لوگ اسے اپنے ممکنہ سیاحتی منازل کی فہرست میں شامل رکھتے ہیں۔ مقامی اور بین الاقوامی سیاح اس علاقے کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں خودکشی کے روزافزوں بڑھتے ہوئے رجحانات پر وقار احمد ملک کی ڈاکومنٹری لینا حاشر کے وال پر دیکھ کر بہت عجیب سا لگا۔ اس لیے کہ ضلع ہنزہ اور غذر جو کہ تناسب کے لحاظ سے تعلیم یافتہ اضلاع میں شمار ہوتے ہیں، پورے پاکستان میں خودکشی کے رجحانات کے حوالے سے بھی ٹاپ پر ہیں۔
ہم دوست بھی سالانہ ٹوور کے لیے دو دفعہ ہنزہ اور غذر کی سیر کرچکے ہیں۔ پہلی مرتبہ جب ہم کریم آباد (جو کہ ہنزہ کا صدر مقام اور تاریخی سایٹ ہے)گئے، تو وہاں کے لوگوں کی طرزِ زندگی میں ایک خاص قسم کا تصنع اور پیچیدگی نظر آئی جو کہ ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت سے میل نہیں کھا رہی تھی۔ اس وقت اپنے دوست (جو آج کل پی ایچ ڈی ریسرچ کے لیے مونٹریال یونیورسٹی کینیڈا میں مقیم ہیں) کے ساتھ اس موضوع پر کافی مغز ماری بھی کرڈالی اور ہم نے اسے سیاحتی انڈسٹری اور آغا خانی عالمی پروجیکشن کے تناظر میں ان پر ہونے والے تجربات اور اثرات کا شاخسانہ گردان لیا۔ اس وقت ہم نے اس مسئلے کو محدود پیرائے میں اخذ کیا تھا، لیکن اس رپورٹ کو دیکھ کر مسئلے کی پیچیدگی کا اندازہ ہوا کہ کس طرح ریاستی اور گروہی مفادات کو آگے لے جانے کی وجہ سے، اور ریاست کی حددرجہ داخلی بااختیار مگر دیسی روایات اور تمدن سے عاری اقدامت کی وجہ سے، اس قدر نفسیاتی اور انسانی مسائل بن رہے ہیں کہ انسانی جانوں کے ضیاع کا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے۔ لوگ "White man’s burden syndrome” کا شکار ہوکر اتنے ڈیپریشن میں چلے جاتے ہیں کہ خودکشی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ویسے ہی بہت سارے اور عوامل کی وجہ سے اتنی گھٹن اور تعفن ہے کہ لوگوں کو جینا محال ہے، اور اس صورت ایک اور عفریت کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
سوات میں بھی ہم لوگ سیاحتی انڈسٹری کے فروغ کے حوالے سے موجودہ مقتدرہ (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کے اس حوالے سے ترجیحات کو محسوس کررہے ہیں، لیکن شنید ہے کہ اس کی وجہ سے جو منفی اثرات یہاں کے ماحولیات، ارضیات، عمرانیات اور خاص کر نفسیات پر پہلے سے آئے ہیں، یا مستقبل میں آنے کے امکانات ہیں، کے حوالے سے متعلقہ اداروں کا کوئی ہوم ورک یا منصوبہ شائد ہی موجود ہو۔یہاں کے لوگوں کے عقائد، روایات اور تہذیب و تمدن سے کوسوں دور جبری اقدامات کی وجہ سے یہاں بھی ایسی استمراری دو جذبیت (skeptic ambivalence)، ذہنی و ادراکی انتشار(cognitive and mental dissonance) اور جذباتی انتشار(emotional dissonance) پیدا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ ریاستی اداروں اور حکومت سے تو اس چیز کی توقع بھی عبث ہے لیکن بایں ہمہ ہمیں یعنی سوات کے باشند گان کو آگے بڑھ کر اس مسئلے کی حساسیت اور شدت کا احساس کرکے حفظِ ما تقدم کے طور پر اقدامات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ میڈیا اور اکیڈیمیا اس حوالے سے ایک مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ معاشرے کے تمام مکتبہ ہائے فکر اور متعلقین (سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے اعتماد میں لے کر لائحہ عمل ترتیب دیا جانا چاہیے، تاکہ سد ذرایع کے اصول کے تحت مسئلہ پیچیدہ ہونے سے پہلے ہی نمٹا دیا جائے۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔