بمبوریت کرکال کی رہنے والی ایک پڑھی لکھی خاتون ’’شائرہ‘‘ نے چترال وومن کالج سے گریجویشن اور پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری لی ہوئی ہے۔ شائرہ مختلف این جی اوز کے ساتھ کام بھی کرتی ہے۔ وہ کیلاشی روایتی لباس پہنتی ہے۔ تمام تہواروں میں حصہ لیتی ہے اور کیلاشی ثقافت اور روایات سے محبت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ کیلاشی لڑکیاں چاہتی ہیں کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ترقی یافتہ علاقوں کی لڑکیوں کی طرح زندگی گزاریں جن کیلاشی خواتین نے تعلیم حاصل نہیں کی، وہ بہت افسوس کرتی ہیں۔
شائرہ کے بقول، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ تعلیم ہی کی وجہ سے کیلاشی مسلمان ہوتے ہیں۔ بیس، تیس سال قبل بھی کیلاشی مسلمان ہوتے تھے اور خاص کر لڑکیاں مسلمان ہوتی تھیں۔ اس حوالہ سے کئی مثالیں ہیں۔ ہمارے کئی خاندان کے لوگ تعلیم یافتہ نہیں تھے، مگر وہ بھی مسلمان ہوئے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ان کا شریکِ حیات اچھے سے اچھا ہو، خوبصورت ہو، مالی طور پر مستحکم ہو اور کیلاش میں آزادی ہے، لڑکی کسی کو بھی جیون ساتھی بنا سکتی ہے۔ ہم اُس کو روک نہیں سکتے۔ جب وہ کسی مسلمان کو پسند کرتی ہے، تو پھر اسے مسلمان ہونا ہی پڑتا ہے۔ بعد میں وہ لڑکی ہمارے کلچر کا حصہ نہیں بن سکتی، نہ وہ دوبارہ کیلاشی ہی بن سکتی ہے۔ کئی لڑکیاں مسلمان ہو کر پچھتا بھی رہی ہیں، مگر ہم کچھ نہیں کرسکتے، نہ وہ پھر کچھ کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے ہمیں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ کوئی بھی مسلمان نہیں چاہتا کہ ان کے مذہب کا کوئی بندہ دوبارہ کیلاشی بن جائے۔ اس طرح کیلاش میں بھی کسی دوسرے مذہب کے شخص کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ایک مرتبہ اس طرح ہوا تھا کہ دماغی طور پر ایک معزور لڑکی جو مسلمان ہوئی تھی، واپس آگئی، تو اس سے بڑا مسئلہ پیدا ہوا۔ مسجدوں میں ہمارے خلاف اعلانات ہوئے اور مسلمانوں کا جلوس نکل آیا۔ ہمیں اپنے اور بچوں کی زندگی کا خطرہ محسوس ہوا۔ ڈھیر ساری لڑکیاں مسلمانوں سے شادی کرکے بعد میں پچھتاتی ہیں۔ ان کو مسلمان گھروں میں پھر طعنے دیے جاتے ہیں کہ تم کافر ہو، تم نے کافر کے گھر میں جنم لیا ہے۔ تم کبھی سچی مسلمان نہیں بن سکتی۔ یوں اب کئی گھروں میں کیلاشی لڑکیوں سے نفرت اور کراہت کی جاتی ہے۔ زیادہ ترلڑکیاں اپنی من مرضی سے چلی جاتی ہیں، تو ان کو شوہر کے گھر وہ حیثیت نہیں ملتی۔ اس طرح بہت سارے مسلمان لڑکوں نے جھوٹ بول کر اپنی حقیقت چھپا کر کیلاشی لڑکیوں سے شادی کی ہے۔ زیادہ تر مسلمان جھوٹے وعدوں سے کیلاشی لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں۔ پہلے پیار و محبت کے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر بعد میں معلوم ہو جاتا ہے کہ یا تو وہ شادی شدہ ہوتا ہے، یا اس نے اپنے خاندان کے لوگوں سے پوچھے بغیر شادی کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس طرح پھر شادی کرنے والی کیلاشی لڑکی کو کئی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پھر بھی شادی کرنے والی لڑکی کے بھائی بہن، والدین ان سے ہمدری رکھتے ہیں اور اس کی تکلیف کی وجہ سے دکھی ہوتے ہیں۔
شائرہ کے مطابق دیگر کیلاشیوں کی طرح وہ بھی اپنے مذہب اور کلچر کے ساتھ محبت کرتی ہے۔ کیوں کہ ان کا مذہب برائی اور جرائم سے منع کرتا ہے۔ شائرہ کے مطابق انہوں نے مذہبِ اسلام کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ "اسلام بھی ہمارے مذہب کے قریب ہے، مگر مجھے اپنے مذہب میں کوئی ایسی برائی نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ ہمارے لوگ بے ضرر ہیں، ہم تشدد کے خلاف ہیں۔ ہم معصوم لوگ ہیں۔ یہاں پر چھوٹے چھوٹے جرائم بہت کم ہیں۔ ہم کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔”
شائرہ کے مطابق کیلاشی کلچر اور قبیلہ بہت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ "شاید بیس یا تیس سال بعد ہمارے کیلاشیوں کا وجود ہی ختم ہوجائے۔ اس وجہ سے مجھے اور ہمارے دوسرے کیلاشیوں کو بہت دکھ ہے۔ میری بہن بھی مسلمان ہو کر چپکے سے پنجاب چلی گئی ہے اور وہاں ایک مسلمان سے شادی رچا گئی ہے، جس پر ہمیں بہت دکھ ہے۔ ہم نے اس سے ہر قسم کا ناتا توڑ دیا تھا، مگر تین مہینے بعد میرا اس سے رابطہ ہوگیا۔ والدین بھی اس سے ناراض ہیں۔ میری ماں نے رو رو کر اپنا برا حال کیا، مگر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ تکلیف اس وقت بہت زیادہ ہوتی ہے جب شادی کرنے والا مسلمان جھوٹ بول کر کیلاشی لڑکی کے ساتھ شادی کر لیتا ہے۔ میں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ زیادہ تر شادہ شدہ اور بچوں والے مسلمان کیلاشی لڑکیوں کے ساتھ شادی کیا کرتے ہیں۔ یوں کیلاشی لڑکیاں بہکاوے میں آکر ہی شادی کے لیے حامی بھرتی ہیں۔” (جاری ہے)

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔