شہرت کا پہلا مطالبہ سب کو خوش کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے نظریات، اُصولوں اور دیانت کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی مقامی سیاست دان ہی کو دیکھ لیں۔ کسی درباری مولوی کو لے لیں یا پھر کسی خوشامدی صحافی یا محقق ہی کو لے لیں۔ شہرت کے متلاشی اپنے دل و دماغ کے ساتھ بھی بڑی زیادتی کرتے ہیں۔ اپنے دل کی بات چھپا کر لوگوں کی پذیرائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عمل کسی قوم کو انفرادی، اجتماعی اور ادارہ جاتی ہر سطح پر تباہ کردیتا ہے۔ انفرادی سطح پر ایسے لوگوں کی تاریخ میں حیثیت کو لے لیں جو اپنے وقت میں بہت معروف و مشہور تھے، لیکن تاریخ نے ان کے ساتھ ان کی خواہش کا انصاف نہ کیا۔
ابراہیم ذوقؔ اپنے دور میں بہادر شاہ ظفرؔ کے دربار سے قربت کی وجہ سے بہت مشہور و معروف تھا اور ایک پُرتعیش زندگی گزارتا تھا جب کہ اس کے ہم عصر غالبؔ کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اس طرح شیکسپیئر گلی گلی جا کر روزی کی خاطر ڈرامے کرتا تھا، جب کہ اس کا ہم عصر جیسے ’’کریسٹوفر مارلو‘‘ وغیرہ کی بڑی حیثیت تھی۔ حال کے پاکستان میں مولوی طارق جمیل چارسو معروف و مشہور ہیں لیکن احمد جاوید کے نام سے بھی لوگ واقف نہیں۔ مگر آج کل غالبؔ ہر کسی کے زبان پر ہے جب کہ ابراہیم ذوقؔ کا نام اردو ادب کے طالب علموں کے علاوہ بمشکل ہی کسی نے سنا ہوگا۔ شیکسپیئر آج کل دنیائے ادب میں سب سے اوّلین مقام پر کھڑا ہے جبکہ کریسٹوفر مارلو کے نام سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔
ہماری سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین جج نے شہرت کی خاطر کئی اہم قدم اٹھائے جو ان کے فرائض منصبی میں نہ تھے۔ کئی ایسے فیصلے کیے جو قانونی تو کجا سیاسی لحاظ سے بھی لازم نہ تھے۔ یہی سپریم کورٹ آج کل سب کو یعنی حکومت کو، مقتدر حلقوں کو، کبھی کبھی اپنے ریمارکس میں ان کے مخالفین کو اور اب اپوزیشن کو بھی خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
شہرت اور مقبولیت کے لیے انفرادی سطح پر دیانت، ذہانت، نظریات اور حق گوئی کو قربان کیا جاتا ہے، تو اجتماعی سطح پر اصولوں، انصاف اور ریاست کو قربان کردیا جاتا ہے۔ ایسے میں پیارا پاکستان پھر وہی پر کھڑا ہے، جہاں 1988ء، 1993ء، 2008ء یا پھر 2017ء میں کھڑا تھا اور مسلسل ایک منحوس گھن چکر میں پھنسا ہوا ہے۔

…………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔