1970ء کی دہائی سے پہلے منشیات کا استعمال اور اس کا دھندا نہ ہونے کے برابر تھا۔ اُس وقت منشیات سے مطلب زیادہ سے زیادہ چرس اور افیون ہوا کرتا تھا، لیکن 70ء کی دہائی کے بعد اور افغانستان جنگ کے شروع ہوتے ہی اس دھندے نے دن رات ترقی کی اور ڈالر حاصل کرنے والے گروہ بعد ازاں منشیات کے کالے دھن میں نہ صرف اپنا حصہ بٹورتے رہے بلکہ پلتے پھولتے بھی رہے۔ وہ شدت پسند گروہ دوسرے کالے دھندوں میں ملوث ہوتے چلے گئے بلکہ بعض اوقات اپنے آقاؤں کے کنٹرول سے بھی باہر ہونے لگے، جن کی چھانٹی کے لیے کیے جانے والے آپریشن آج تک جاری ہیں، جن میں بیشتر غریب لوگ ہی برباد ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان "پراکسی” گروہوں کی آپس کی لڑائیاں بھی عام انسانوں کی خوں ریزی کا باعث بنتی رہی ہیں۔
افغانستان میں امریکی قبضے کے بعد سے افیون کی کاشت 25 ٹن (جب 2001ء میں قیمتیں بڑھانے کے لیے طالبان نے افیون کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی) سے بڑھ کر 2016ء میں 4800 ٹن تک جا پہنچی تھی۔ بعض دوسرے تخمینوں کے مطابق یہ مقدار اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
دنیا کی کل ہیروئن کا 90 فی صد جب کہ یورپ میں سپلائی کی جانے والی ہیروئن کا 95 فی صد افغانستان میں کاشت کی جانے والی افیون سے پیدا ہوتا ہے۔ صرف اس خام افیون کی سالانہ مالیت کا تخمینہ ساڑھے چھے ارب ڈالر سے زیادہ ہے جب کہ افغانستان میں چار لاکھ افراد کا روزگار براہِ راست اور تقریباً 30 لاکھ کا بالواسطہ طور پر اس سے وابستہ ہے۔ یہ تعداد افغان سکیورٹی فورسز کے کل اہلکاروں سے کہیں زیادہ ہے، منشیات کا یہی مکروہ دھندا نہ صرف ماضی میں طالبان حکومت کا بنیادی ذریعۂ آمدن رہا ہے بلکہ آج بھی طالبان سمیت ہر طرح کے بنیاد پرست گروہوں، جن میں حال ہی میں "داعش” بھی شامل ہوچکی ہے، کی قوتِ محرکہ ہے۔
طالبان بھی تو کوئی یکجا تنظیمی اکائی نہیں۔ اس نام سے پکارے جانے والے بے شمار گروہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف سرگرم ہیں، جن میں کہیں اتحاد پایا جاتا ہے، تو کالے دھن کی حصہ داری پر آپسی چپقلش اور خونی تصادم بھی معمول ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 30 ارب ڈالر کی منشیات پاکستان کے راستے سے دنیا کے دوسرے خطوں میں سمگل کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد کے تقریباً چھے سالوں میں افغانستان میں جس طرح سے افیون کی کاشت اور منشیات کی تیاری میں اضافہ ہوا ہے، اس کے پیشِ نظر باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں سے گزر کر دنیا کو ترسیل کی جانے والی منشیات کا مالی حجم اس سے کہیں زیادہ ہوچکا ہوگا، یا شاید دوگنا ہوچکا ہو۔ یوں پاکستانی کرنسی میں یہاں سے سمگل کی جانے والی منشیات کی مالیت وفاقی حکومت کے بجٹ سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ لہٰذا افغانستان میں کاشت اور تیاری سے لے کر ترسیل تک منشیات کی دیوہیکل معیشت کا پورا نیٹ ورک ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے پل پھول رہا ہے، لیکن پاکستان کے راستے اسمگلنگ سے ہٹ کر خود یہاں جس بڑے پیمانے پر منشیات کا استعمال آج ہو رہا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں منشیات کا دھندا کئی سو ارب روپے کا مالیاتی حجم اختیار کرچکا ہے۔
پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد کا تخمینہ ایک کروڑ تک ہے، جن میں سے تیس لاکھ افراد ہیروئن کے عادی (جن کی عمر 24 سال سے کم ہے) جب کہ پچاس لاکھ افراد چرس پیتے ہیں۔ ہر سال چھے لاکھ مزید لوگ منشیات کے عادی بن رہے ہیں اور ایسے ایسے نئے نشے منظرِ عام پر آ رہے ہیں جن کا سن کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ منشیات کا استعمال ملکی سطح پر ہر روز 800 افراد کی جان لے رہا ہے۔ منشیات کے عادی افراد میں سے 22 فی صد خواتین ہیں اور حالیہ عرصے میں بالخصوص درمیانے طبقے کی خواتین میں مختلف منشیات کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ڈالر جہاد کے آغاز سے پہلے یہاں ہیروئن کے عادی مریضوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی، لیکن کئی سو گنا اضافے کے ساتھ آج پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں منشیات کا استعمال وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ گذشتہ عرصے میں ملکی میڈیا میں ایسے کئی منشیات فروش گروہوں کی خبریں شائع ہوئی ہیں، جن کی کلیدی منڈیاں مختلف سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں اور خود اداروں کے طلبہ اس دھندے میں بڑے پیمانے پر ملوث پائے گئے ہیں۔ مثلاً 2016ء میں ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے ایک مہنگے نجی تعلیمی ادارے کے 53 فیصد طلبہ منشیات کا استعمال کر رہے تھے۔ اسی طرح کراچی اور فیصل آباد جیسے مزدور طبقے کے گڑھ سمجھے جانے والے شہروں میں منشیات کا استعمال ایک باقاعدہ وبا کی صورت اختیار کرگیا ہے۔
منشیات کی یہ وبا محض "لا اینڈ آرڈر” یا جرائم کی معیشت کا مسئلہ نہیں بلکہ سماج کی عمومی گراوٹ اور بالخصوص نوجوان نسل میں گہری ہوتی ہوئی بیگانگی کی غمازی کرتی ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی لگا کر جس طرح نوجوانوں کو نظریاتی مباحث اور سیاست سے کئی دہائیوں تک کاٹا گیا ہے، نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں جس طرح نوجوانوں کی ہر تخلیقی کاوش اور ثقافتی سرگرمی کو کچل دیا جاتا ہے، مقابلہ بازی کی وحشیانہ نفسیات جس طرح سے تعلیمی نظام پر مسلط ہوچکی ہے اور مستقبل جتنا غیر یقینی اور غیر مستحکم نظر آتا ہے، اس کے پیشِ نظر نئی نسل میں جرائم، منشیات، خودکُشیوں، نفسیاتی مسائل اور دوسرے سماج دشمن رجحانات کا پنپنا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔
ان تمام اعداد و شمار پیش کرنے اور بیانیہ جاری کرنے کا مطلب مایوسی پھیلانا ہر گز نہیں، لیکن شتر مرغ کی طرح ریت میں سر رکھ کر آنکھیں بند کرکے انجان بننا بھی مناسب نہیں۔ حقائق کو سامنے رکھ کر حالات کے مقابلے میں کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ کوئی غور و فکر کرنا چاہیے۔ عملی اقدامات کے لیے بعد کسی رنگ و نسل و مذہب اور سیاسی وابستگی کے ملکی سطح پر جد و جہد کرنے کی ضرورت ہے۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔