مجھے اچھی طرح یاد ہے یونیورسٹی کے کسی کلاس میں پروفیسرحیات اللہ صاحب نے فرمایا تھا، میرے پاس ایک بندہ کسی غریب بندے کی سفارش لے آیااور کہا: ’’پروفیسر صاحب یہ بندہ دانے دانے کا محتاج ہے، اِس کی گزری زندگی کا آدھے سے زیادہ حصہ ٹیڑھے حالات کی نذر ہو گیا۔ آپ اس کے لیے کسی چھوٹی موٹی نوکری کا بندوبست کر لیں۔ اوپر والا آپ کا بھلا کرے گا۔‘‘ پروفیسر نے سفارشی کی فریاد سنی اور فرمایا: ’’میں اس مفلس بندے کے لیے ضرور کوشش کرتا، لیکن افسوس غربت کوئی اہلیت یا پھر سند نہیں۔ اس لیے میں آپ کے اس عزیزکے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ آپ لوگ جا سکتے ہیں۔‘‘
ہمارے عزیز پروفیسر کی بات ایک حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو چیخ چیخ کر بتاتی ہے اِس دنیا میں امیری ہو، غربت ہو، ایمان داری ہو یا پھر بے ایمانی، یہ سب کسی انسان کی اضافی خوبیاں اور خامیاں تو ہو سکتی ہیں، لیکن یہ کبھی اہلیت نہیں ہو سکتیں، یہ خوبیاں سند ہوسکتی ہیں نہ ڈگری۔ ہماری بدقسمتی کی کہانیاں آج ایک دیوان کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور اس دیوان کی ہر کہانی میرٹ کی پامالی، رشتوں کے بل بوتے پر عہدوں کی تقسیم اور اہلیت سے زیادہ ایمان داری کی ترویج پر مشتمل ہے۔ مثلاً موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’’عثمان بزدار کا تعلق چوں کہ جنوبی پنجاب کے پسمان دہ ترین علاقہ سے ہے، اس لیے یہ پنجاب کے وزارت ِ اعلیٰ کے لیے موزوں ہے۔‘‘ کیا موجودہ ’’سیٹ اَپ‘‘ میں پس ماندگی، غربت اور خستہ حالی ہی میرٹ ہیں؟ اور کیا سب کو علم نہیں کہ موصوف سے جب ایک رپورٹر نے پاکستان کے پہلے صدر کے نام کے بارے میں پوچھا، تو موصوف نے فرمایا:’’آپ ابھی سے یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ آج صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کے اصل وزیر اعلیٰ کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ عوام کبھی علیم خان کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی جہانگیر ترین کی طرف۔ اسد عمر بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اسد عمر کو اُس کی قابلیت اور مہارت کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان داری کی وجہ سے وزارتِ خزانہ سونپا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ اسد عمر ایمان دار ہوگا، لیکن آج محض سو دن گزرنے کے بعد مہنگائی، افراطِ زر اور ڈالر کی اُڑان سب کے سامنے ہے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ وہی کہ اسد عمر اور اس کے تمام افلاطونی دعوے عوام کی نظروں میں مشکوک ہوگئے۔ آپ آج بھی حکومت کے کسی بندے سے پوچھیں کہ مسلم لیگ ن کے دور میں پٹرول 87 روپے اور گیس 84 روپے میں ملتا تھا۔ وہ جواب دے گا، ’’کیا ہوا ہماری حکومت کرپٹ تو نہیں۔‘‘ گویا موجودہ حکومت صرف دو صفات پر چل رہی ہے، ایمان داری اور پس ماندگی۔
ہم تاریخ کے عجیب موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ ہمارا خیال ہے جو حکومت پٹرول کو 87 روپے، گیس کو 84 روپے اور ڈالر کو 124 پر قابو کرنے سے قاصر رہی، یہی حکومت اگلے چھے ماہ یا پھر ایک سال میں اپنی تمام تر ایمان داری کے بل بوتے پر حالات کو ریورس گیئر لگا دے گی۔ ڈالر 50 روپے پہ آجائے گا، پٹرول 60 روپے فی لیٹر فروخت ہوگا اور گیس ملک کے تمام صارفین کو ’’مفت‘‘ ملے گی۔ میرا خیال ہے نئے پاکستان کی نئی حکومت پرانے پاکستان کی پرانی قیمتوں تک پہنچنے کے لیے دو سال لگاتار کوشش کرے گی۔ یہ کوشش بھی تب کامیاب ہوگی جب حکومت سنجیدہ اور اہل لوگوں کو کام پر لگا دے گی۔ وگرنہ دہلی کل اتنا دور نہیں تھا جتنا یہ آنے والے دنوں میں دور ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہم آج کا موازنہ کل سے نہیں کر سکتے اور نہ پرسوں کا موازنہ گزرے کل ہی سے کر سکتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حکومت 14 اگست 1947ء سے لے کر 25 جولائی 2018ء تک حساب کتاب کے جن تخمینوں پر اپنا وقت برباد کر رہی ہے، یہی وقت اگر حکومت 2023ء تک کے اندازوں اور تخمینوں کو عنایت کر دے، تو شائد طوفان میں پھنسی کشتی کو ساحل مل جائے۔ موجودہ حکومت خوش قسمت ہے کہ سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں۔ سول جوڈیشل تعلقات میں گھٹن نہیں۔ میڈیا حکومت کو سپیس دے رہا ہے۔ اپوزیشن اِس حد تک خاموش ہے کہ میڈیا اِس خاموشی کو ’’پُراسرار‘‘ خاموشی کہہ رہا ہے۔ تحریکِ لبیک ’’بیک ٹو پویلین‘‘ ہو چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے تمام سیاسی چال ناکام ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ ’’ڈو مور‘‘ کی بجائے درخواست کرتا پھر رہا ہے اور انڈیا ’’بیک فُٹ‘‘ پر کھیل رہا ہے۔ حکومت اگر اس آئیڈیل صورتحال میں بھی عوام کو سہولت دینے سے قاصر ہے، تو پھر ہمیں ماننا ہوگا مسئلہ باہر نہیں حکومت کے اندر ہے۔ جب پرویز خٹک کھل کر پختونخوا کی حکومت پر برس پڑے۔ جب جہانگیر ترین اور اسد عمر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں اور جب اعظم سواتی کو شدید حالات میں استعفا دینا پڑ جائے، تو پھراخبارات کی شہ سرخیاں پڑھنے والا ایک عام سا قاری بھی مسئلے کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے کہ ایمانداری سب کچھ ہو سکتی ہے لیکن یہ ٹیلنٹ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ حکومت اگر مولی کو مولی رہنے دے اور اسے گاجر ثابت نہ کرے، تو یہ مسائل کی دیوار سے ایک اینٹ اکھاڑ سکتی ہے لیکن سرِدست ایسا کرنے کی افسوس ناک کوششیں ہو رہی ہیں جو آنے والے وقتوں میں سود مند ثابت نہیں ہونگیں۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔