رات کو چند دوستوں نے واشنگٹن کے ’’نیشنل ہاربر‘‘ جانے کا فیصلہ کیا اور مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ ہمارا گروپ پانچ مرد حضرات اور تین دوشیزاؤں پر شامل تھا۔ اراکین، راقم کے علاوہ قیصر، عبدالسلام، حسنین، حسن، عنبر، حنا بلوچ اور زاہدہ تھے۔ جب ہم ہوٹل سے نکلے، تو دو ’’اُوبر ٹیکسی‘‘ لیے اور تقریباً تیس منٹ میں نیشنل ہاربر پارک پہنچے۔ یہاں رات کو امریکیوں اور سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ یہ سیر سپاٹے کی بہترین جگہ ہے۔ یہاں مختلف قسم کے جھولے، ریسٹورنٹ اور کشتی سروس موجود ہے۔ پوٹومک دریا کے کنارے آباد اس پارک میں رات کو بڑا عاشقانہ ماحول ہوتا ہے۔ چوں کہ ہم سب فیلوز کو رات بتانے کے بعد امریکہ کی مختلف ریاستوں میں میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے کے لیے جانا تھا، اس لیے سفر کی تیاری بھی کرنی تھی۔ بدیں وجہ ہم نے وہاں بڑے پہیے والے جھولے سے لطف اٹھانے اور کچھ وقت گزارنے کے بعد ہوٹل واپس آئے۔

واشنگٹن کا نشنل ہاربر پارک جہاں ہر وقت سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

میرا اور ہیرالڈ میگزین کی سب ایڈیٹر فاطمہ نیازی کا تعلق پرنٹ میڈیا سے تھا، تو ہم دونوں کو ایک گروپ میں فلوریڈا سٹیٹ جانا تھا، جہاں ہم نے ایک ماہ کے لیے ’’فلوریڈا ٹو ڈے میڈیا ہاؤس‘‘ کے ساتھ کام کرنا تھا۔ صبح ہم چند ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ جن جن فیلوز کی فلائٹ کا وقت ایک ہے، وہ ایک ساتھ ائیر پورٹ جائیں۔ اس لیے ہم ایک ہی گاڑی میں واشنگٹن کے رونالڈ ریگن ایئرپورٹ گئے۔ یہاں سے ہمارے راستے الگ ہوئے۔ زاہدہ اور نیسمہ اپنے ٹرمینل کی طرف چل دیے جب کہ مَیں اور فاطمہ نے اپنی راہ لی۔ اس موقع پر فاطمہ کے پاس تین بڑے سوٹ کیس تھے۔ اس لیے مَیں نے ساتھ ہی سامان لے جانے والی ٹرالیوں سے ایک اٹھانی چاہی، مگر وہ لاک تھی۔ ساتھ ہی موجود ایک شخص نے کہا کہ اس کے لیے پہلے فیس دینا پڑے گی۔ میں خاموشی سے وہاں سے کھسکا اور اس بات میں عافیت جانی کہ فاطمہ کا ایک بھاری بھر کم سوٹ کیس میں ہی اٹھا لوں۔ دل ہی دل میں سوچا کہ اس چھوٹی سی چیز (فاطمہ) نے کیوں سامان پورے محلے کا اٹھا لایا ہے؟ جب ہم اندر گئے، تو معلوم ہوا کہ ٹرمینل پر موجود خودکار مشینوں سے ہی سامان کی بکنگ کرکے آگے جا سکتے ہیں، اس لیے قطار میں لگ گئے، مگر جب مشین کے قریب پہنچے، تو پتا چلا کہ رقم کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے ہی ہوسکتی ہے، نقد رقم وصولی کا کوئی طریقہ نہیں۔ چوں کہ ہم دونوں کے پاس کریڈٹ کارڈ نہیں تھا، اس لیے ایئرپورٹ عملہ کو مسئلہ سے آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے جواباً کہا کہ اب کچھ نہیں کیا جاسکتا، جس نے ہمیں ٹینشن میں مبتلا کر دیا، تاہم ایک خاتون نے ہمیں سمجھایا کہ آخری کونے میں ایک مشین لگی ہوئی ہے جو ہماری نقد رقم کو پانچ ڈالر کی اضافی رقم کے ساتھ ایک ’’ڈیبٹ کارڈ‘‘ میں تبدیل کردے گی۔ ہم بنا وقت ضائع کیے دوڑے دوڑے وہاں گئے اور کارڈ حاصل کرتے ہی واپس آئے۔ جھٹ سے سامان جمع کرکے ڈیپارچر لاؤنچ گئے۔ جہاں انتظار کرتے سمے وقفہ وقفہ سے امریکی ہمارے قریب آتے اور گپ شپ لگاتے۔ مَیں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ امریکہ کے لوگ اتنے ملنسار اور ہنس مکھ بھی ہوں گے۔ کیوں کہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ امریکہ کے لوگ بڑے مغرور اور بدمزاج ہوتے ہیں۔ ایک خاتون دور سے میرے قریب آئی اور میری سفید شرٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجھ پہ بہت جچ رہی ہے جس پر ساتھ میں بیٹھی ہوئی فاطمہ سے میں نے کہا کہ دیکھو، امریکیوں کو میں پسند آرہا ہوں۔ فاطمہ نے میری طرف دیکھ کر کچھ کہا تو نہیں مگر منھ ضرور چڑایا۔
ہم یہاں سے ’’شارلٹ ائیرپورٹ‘‘ پر اترے اور وہاں سے ’’ملبورن فلوریڈا ائیرپورٹ‘‘ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب ہم وہاں اترے، تو ’’فلوریڈا ٹوڈے‘‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر باب گبوڈی اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمار ا انتظار کر رہے تھے۔ ہم ان سے ملے۔ سامان وصول کیا اور باب کی گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ گاڑی ائیر پورٹ سے باہر نکلی، تو شام ڈھل چکی تھی جب کہ ہلکی ہلکی بارش بھی برس رہی تھی، تاہم موسم گرم تھا۔ ہمارا قیام ’’کینڈل ووڈ سویٹ‘‘ نامی ہوٹل میں تھا جو ملبورن میں ’’بریوارڈ کاؤنٹی‘‘ کے پائی نیڈا پلازہ میں ویکم روڈ کے قریب پُرسکون جگہ میں واقع ہے۔ ہوٹل کے کمروں میں اپنا چھوٹا سے باورچی خانہ ہے جس سے ہمیں اپنا کھانا خود تیار کرنے میں آسانی تھی۔ ہم سفر کی وجہ سے کافی تھک چکے تھے۔ اس لیے اپنے اپنے کمرہ آرام کرنے کے کی غرض سے گئے۔
ملبورن فلوریڈا سٹیٹ کے بریوارڈ کاؤنٹی کا حصہ ہے جو انتہائی پُرسکون ہونے کے ساتھ ساتھ سرسبز و شاداب بھی ہے۔ یہاں جگہ جگہ پانی کی خوبصورت جھیلیں بنائی گئی ہیں۔ اکثر تو رہائشی علاقوں میں چھوٹی بڑی جھیلیں اس طرح سے بنائی گئی ہیں کہ یہ وہاں موجود تمام گھروں کے پچھواڑے سے ملتی ہیں۔ یہاں کے رہائشی سرسبز دالانوں اور پانی کے خوبصورت تالابوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہاں سیکڑوں چھوٹے بڑے تالاب ہیں۔ علاقہ اتنا صاف ستھرا اور بہتر طریقے سے ’’مینج‘‘ کیا گیا ہے کہ دیکھنے والوں کے لیے باعثِ کشش ہے۔ تاہم ملبورن، فلوریڈا سپیس کوسٹ (Space Coast) کا حصہ ہے جہاں کنیڈی سپیس سنٹر اور کیپ کناویرال ائیر فورس سٹیشن قائم ہے۔ امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا، خلا میں راکٹ یہیں سے بھیجتا ہے۔ اس لیے یہ علاقہ ناسا، خلائی تحقیق اور راکٹوں کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں خوبصورت ساحلِ سمندر جن میں ’’کوکو بیچ‘‘بھی شامل ہے، دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں سے بھرا پڑا رہتا ہے۔ مبلورن کے بارے میں بعد میں ذکر آئے گا، اب میں تھوڑا سا فاطمہ شاہین کے بارے میں بھی لکھ لوں۔

ہیرالڈ میگزین کی سب ایڈیٹر فاطمہ شاہین نیازی کی خوشگوار موڈ میں اک تصویر۔ (فوٹو: فضل خالق)

فاطمہ شاہین نیازی کا تعلق کراچی سے ہے۔ اکہرے بدن کے ساتھ وہ پُرکشش شخصیت کی مالک ہے۔ پہلے تو میں اس کو سیدھی سادی کم گو لڑکی سمجھتا تھا، مگر اس کے ساتھ ملبورن میں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مجھ پر اس لڑکی کی شخصیت کے بہت سے اسرار کھلتے گئے۔ وہ شکل کے علاوہ کسی بھی زاویہ سے مشرقی لڑکی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ مغرب کی لڑکیوں کی تمام عادتیں اپنائے ہوئی ہے۔ اسے اپنے ملک سے کوئی خاص محبت نہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتی ہے کہ ساری دنیا ہی اصل میں تمام انسانوں کامسکن اور ملک ہے۔ سرحدیں تو انسانوں کی بنائی ہوئی چیز ہیں۔ وہ خواتین کے متعلق مشرقی ثقافت اور روایات کو فرسودہ اور جبر پر مبنی سمجھتی ہے۔ وہ امریکہ سے بہت متاثر ہے اور یہاں رہنے کی خواہش مند ہے۔ وہ امریکیوں کو، چاہے مرد ہوں یا خواتین، جوان ہوں یا بوڑھے، سب کو پہلی ہی نظر میں پسند آجاتی ہے۔ وہ کراس فٹ جم جاتی ہے، بار جاتی ہے، نائٹ لائف کی دلدادہ ہے اور کوتاہ لباس پہننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ وہ باہر سے خاموش لڑکی ہے، مگر اس کے اندر بہت کچھ ہے۔ بہرحال فاطمہ آزاد خیال مگر اچھے دل کی مالک ہے اور خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی دوست بھی ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ وہ ایک آئس برگ ہے۔ (جاری ہے)

……………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔