پچھلے کئی سالوں سے ملکی سیاست جس شدت سے کشمکش، ہلڑبازی اور کھینچاتانی کا شکار ہے، ٹھیک اسی طرح ایک مزاحیہ ترین دور سے بھی گزررہی ہے۔
اس سے قبل زرداری دور میں سیاسی تفریح بلوچستان اور سندھ تک محدود تھی، جہاں نواب اسلم رئیسانی اور سائیں قائم علی شاہ نے پاکستانی سیاست کو کبھی بوریت کا شکار نہیں ہونے نہیں دیا۔ دیکھئے، جس طرح فلمیں اور ڈرامے، تجسس، ڈر، ہاتھا پائی اور طنز و مزاح کے بغیر نہیں چل سکتے، ٹھیک اسی طرح پاکستانی سیاست کا بھی ان خصوصیات کے بغیر چلنا ممکن نہیں، کیوں کہ یہاں سیاست نہیں، سیاسی ’’ڈرامہ بازی‘‘ چلتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ڈرامہ بازی میں ایسا کمال رکھتے ہیں کہ باقی ممالک میں شام نو بجے لوگ ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے ہوتے ہیں، تو ہم نو بجے کی ڈرامہ نما خبروں سے لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ان ڈرامہ نما خبروں کی نشریات کے لیے ہمارے ہاں جیو، بول اور اے آر وائی جیسے ایسے پروفیشنل چینلز موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے ’’مسٹربین‘‘ کے ڈرامے بھی بے مزہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اگر ایک چینل پر جس کا کردار ہیرو کا دکھایا جاتا ہے، تو دوسرا چینل اسی کردار کو ویلن کے روپ میں پیش کرتا ہے، جس سے ہم نہ صرف بیک وقت کئی ٹی وی چینلوں کے ڈراموں کا مزا لیتے ہیں، بلکہ ملک میں ’’ریموٹ‘‘ کے کاروبار کو بھی فروغ ملتا ہے ۔
ریموٹ سے یاد آیا، ہمارے ہاں ’’ریموٹ‘‘ سے چلنے والے سیاست دان بھی مل سکتے ہیں، جن کے ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ ڈائیلاگز ٹی وی مالکان کو بھی الجھا کے رکھ دیتے ہیں کہ کون سا ڈائیلاگ ’’یوٹرن‘‘ لے سکتا ہے، تاکہ اس کو حذف کیا جاسکے !
یوٹرن سے یاد آیا کہ اسلام آباد سے سوات جاتے ہوئے منڈی موڑ پربہت بڑا لیڈر بننا پڑتا ہے (معذرت کے ساتھ) یو ٹرن لینا پڑتا ہے، جو شدید اذیت کا باعث ہے، یہاں پر کم از کم ایک فلائی اوور بننا چاہیے۔ اسی طرح سوات پشاور، مردان اور سوات میں بھی مزید فلائی اوورز بنائے جائیں، تو بہت سے ’’لیڈروں‘‘ کا فاصلہ ختم ہوسکتا ہے ۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ہم نے تو سیاسی مزاح کا حوالہ چھیڑا تھا اور الجھ گئے یوٹرنز میں۔
حالیہ سیاسی ڈراموں میں سب سے بڑا مزاح کا سامان حکومت کا سوروزہ پلان کا اعلان بھی تھا۔ پھر ہم عوام کی لاچاری اور مجبوری دیکھئے کہ جس طرح ہم ’’عامل بابے‘‘ کو کالی مرغی کھلا کر جادو کے توڑ کا انتظار کرتے ہیں، اسی طرح ووٹ کی پرچی تھماکر سیاسی بابے کے جادو کا انتظار کرتے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عامل بابے کالی مرغی کھا کر بھی کالا جادو نہیں بھگا سکتے اور سیاسی بابے جادو پھونک کر مرغیاں کھلاتے ہیں۔ اور ہمیں کھانا بھی پڑتا ہے۔ کیوں کہ جب دال زیادہ مہنگی ہو، تو پھر فارمی مرغی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ بات پھر عاملوں اور مرغیوں کی طرف نکل پڑی ہے، تو چلیں ایک سیاسی مرغی اور غیر سیاسی انڈوں والے ڈرامے پر بھی تھوڑی سی بحث کرتے ہیں۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ حکومت نے سو دنوں میں درجن بھر اعلیٰ یونیورسٹیوں کی تعمیر، خزانے سے چوری شدہ اربوں ڈالرز کی واپسی اور پھر اسے امریکہ کے منھ پر دے مار کر جنگ سے نکل جانا، اسی طرح جنگ پر مزید خرچ ہونے والی رقم کو ان منظور شدہ یونیورسٹیز پر لگانا، ملک میں اعلیٰ صنعتوں کو چین اور جاپان کے برابر لا کے کھڑا کرنا، ایک کروڑ نوکریوں کے لیے نوکروں کی تلاش، لیکن کیا کریں ان دیہاتی خواتین کا جن کی وجہ سے یہ سارے خواب، انڈوں کی طرح ٹوٹ کر تعبیر پا نہ سکے۔دراصل چند دیہاتی خواتین عمران خان کے پاس مرغیاں لینے آئی تھیں، جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا ہے کہ ایک کروڑ نوکریوں کے لیے ایک کروڑ نوکر چاہیے ہوتے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ دیہاتی خواتین یا تو مرغیاں پالنا جانتی ہیں، یا شوہر کا غم پالنا۔ اس کے علاوہ نوکریاں ان کے تصور میں بھی نہیں۔ ملک کے وزیر اعظم ان کے تجربے اور اہلیت کو سمجھ چکے تھے اور چند انڈوں سے ڈربے بھرنے اور کٹوں سے بھینس تک کی پیداوار کے تمام آزمودہ نسخے انہیں بتا دیے (حالاں کہ ان نسخوں کا سو روزہ پلان سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا) مگر ان ریلو کٹے دانشوروں اور ماہرینِ معاشیات کے پلے کچھ بھی پڑنے والا نہیں۔ یوں سب نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے ملک کے وزیر اعظم کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ اُدھر دوسری طرف ٹی وی چینلوں کے پھر سے وارے نیارے ہوگئے ۔
قارئین، ہم تو سیاسی مزاح کے عادی ہیں، اس لیے نئے پاکستان کے وہ سارے سنجیدہ خواب دھرے کہ دھرے رہ گئے۔ سوشل میڈیا پرجیسے مرغیوں اور انڈوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ بھئی، حکومت سنجیدہ ہوچکی ہے۔ اس لیے میڈیا کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی رائے کو ہموار کرنا ہوگا۔ اگر معیشت پر ڈرامے چلائے جائیں گے، تو حکومت کو متبادل سوچنا ہوگا۔ جس طرح سگریٹ پر گناہ ٹیکس لگانا پڑا اسی طرح عوام پر بے گناہ ہونے کا ٹیکس لگانا پڑے گا۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔