جمہوریت یقیناً عوامی فلاح کا نظام ہے۔ کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے نام لیوا عوام کی بہبود میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے اور درست بھی ہے کہ ہم ہمیشہ منفی رجحانات جلدی اپناتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس مثبت اعشاریے ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ ہم بطورِ مجموعی ایک بے صبری قوم ہیں، جو جلدی اپنی برداشت کھو بیٹھتے ہیں اور جب ہم برداشت کھو بیٹھتے ہیں، تو ہمارا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے، جسے لو کرنے کے لیے مجبوراً ہمیں تنقید کے نشتر برسانا پڑتے ہیں۔ کیوں کہ اگر ہم یہ نشتر نہ برسائیں، تو یہ ہائی بلڈ بریشر ہمیں تگنی کا ناچ نچا دیتا ہے۔ لہٰذا اس سے چھٹکارے کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ تختۂ مشق چاہیے ہوتا ہے اور حکومت سے آسان تختۂ مشق بھلا ہو بھی کیا سکتا ہے! لہٰذا ہم حکومتِ وقت پہ تنقید کے نشتر برسانا شروع کر دیتے ہیں۔ طعنوں کا رُخ اُن کی جانب کر لیتے ہیں۔ وہ بے چارے کریں بھی، تو کریں کیا؟ ایک تو عوامی خدمت کا جذبہ اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے کہ مزید کوٹ کر کچھ بھرنے کی صلاحیت ہی دم توڑ جاتی ہے۔ اوپر سے عوامی غیض و غضب ان بے چاروں کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔ وہ کام کیا خاک کریں گے؟ ان کو تھوڑا سکون چاہیے ہوتا ہے۔ ان کا حق بھی ہے، عوامی مسکراہٹوں کا۔ کچھ کوتاہیاں ان کی بھی نظر انداز ہونی چاہئیں۔ وہ اتنے جان جوکھوں سے کروڑوں خرچ کرکے ہماری خدمت کے لیے آتے ہیں اور ہم ان کو ہی لتاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو آنکھوں دیکھے پہ یقین کرنے کے عادی ہیں۔ بھئی، جو ہمیں نظر نہیں آ رہا اور جو وہ بتانا چاہ رہے ہیں، کچھ پوشیدہ راز، کچھ پوشیدہ خدمات ان پہ توجہ دینا بھی تو لازم ہے۔ لیکن نہیں جی، ہم ایسا نہیں کر سکتے، نہ کرنا چاہتے ہیں۔
معاشرے کی ترقی میں سوچ یقینا تعمیری کردار ادا کرتی ہے۔ آئیے، آج سے ہم بھی حکومتِ وقت کے لیے اپنی سوچ کو تھوڑا تبدیل کر لیتے ہیں۔ آئیے، ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہماری نئی کابینہ ہر فن مولا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں، تبھی تو سب پاس ہوگئے۔ اور سونے پہ سہاگا یہ کہ ریلوے کے بڑھتے کرایوں پہ واویلا کرنے کی بجائے آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے وزیرِ ریلوے کتنی دفعہ میڈیا کی زینت بنے، اور ان کے سریلے بیانات کی وجہ سے وزیر اعظم خوش بھی ہوئے۔
آپ کی منفی سوچیں ہی آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں، کہ سردیاں شروع ہوتے ہی گیس پائپ لائن سے غائب ہو گئی ہے۔ ارے بھئی، گیس غائب ہو گئی ہے وزیرِ پٹرولیم اور گیس تو غائب نہیں ہوئے ناں! وہ میڈیا پہ آتے رہتے ہیں۔ اکثر آپ کو اپنے ارشادات سے نوازتے بھی رہتے ہیں۔ کیا اتنا کم ہے؟ اور آپ اکتفا کرنے والی قوم تو ہیں ہی نہیں کہ آپ کے وزیرِ ادائیگیِ کلمات و پیغامات رسانی و معلومات فراہمی پہلے سے ماشاء اللہ زیادہ بولنے والے ہیں۔ ان کی زبان کے واہ واہ، کیا کہنے! اور آپ ہیں کہ ان پہ بھی لعن طعن کرنے سے باز نہیں آتے۔ آپ کو تو وزیر اعلیٰ تک درویش ملے ہیں اورآپ ہیں کہ ان کے کم اختیارات پہ بس تنقید کیے چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی کا طوفان آپ کو نظر آ جاتا ہے، ڈالر میاں کی چھلانگیں آپ کی ترچھی نظر سے نہیں بچ سکتیں، زرِ مبادلہ کی بے ترتیبی پہ آپ تنقید کرنا حق سمجھتے ہیں، لیکن آپ یہ بات کیوں نہیں کرتے کہ آپ کے وزیرِلین دین و خزانچی و روپیہ پیسہ کتنے قابل ہیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے ہی پالیسیاں بنا چکے تھے۔ عوام کا تو کام ہی تنقید ہے، اب بھلا اگر وہ پالیسیاں ان کو ابھی مل نہیں رہیں انبارِ کاروبارِ حکومت میں، تو ان کا کیا قصور! تھوڑا صبر تو کریں، مل جائیں گی۔ اور آپ کیوں صرف تنقید کرنا ہی جانتے ہیں کہ احتساب صرف مخالفین کا ہو رہا ہے، تھوڑا سا تو پیمانہ صبر بھر رکھیے کہ ابھی سے اگر حکومتی اراکین کے خلاف بھی کیسز کھل گئے، تو وہ بے چارے کام کاج کیسے کریں گے؟ کیا ان کو ابھی سے ذہنی اذیت دینا دانشمندی ہو گی؟ تھوڑا انتظار!
بھئی، اب اگر پہلے سو دنوں میں پارلیمانی امور کے حوالے سے کچھ نہیں کیا جا سکا، تو کیا ضروری ہے کہ باقی کے چار سال چند ماہ میں نہ کیا جا سکے۔ اور حد ہی ہو گئی، ٹھیک ہے کہہ دیا تھا کہ دورے نہیں کروں گا، لیکن اب پیسوں کی کمی ہی اتنی ہو گئی تھی، تو بیرونی دورے کرنا تو مجبوری ہو گئی تھی ناں! اس پہ بلا وجہ تنقید کیوں؟ ہم قومی سطح کے معاملات سے فارغ نہیں اور آپ کو اس سوچ نے گھیر لیا کہ ابھی تک ٹرن کتنے لیے؟ چاہے ’’یو‘‘ ہوں یا ’’وی‘‘۔ بھئی! لینے پڑتے ہیں، بات کہہ کے، حالات کارُخ دیکھ کے اس سے پھرا جا سکتا ہے، یہ عوام کی بہتری کے لیے ہی ہے۔ اور عوام کی کم عقلی کا اندازہ لگا لیجیے کہ رشتہ داروں میں عہدوں کی بندر بانٹ تو نہیں ہوئی ناں، کیا ہوا جو یار دوستوں کا تھوڑا خیال رکھ لیا تو! کیا یار یاروں کے کام نہیں آتے؟
کوئی شک نہیں کہ ہم بطورِ مجموعی بے صبری قوم ہیں۔ ہم نہ تو کسی کو کچھ وقت دینا چاہتے ہیں، نہ ہمارے اندر برداشت کا مادہ ہی باقی رہا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ حکومت جادو کی چھڑی گھمائے اور ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں۔ پہلے تو اس قوم نے فوراً ہی تنقید شروع کر دی، پھر تین ماہ مانگے گئے اور اب فوراً ہی تین ماہ ختم ہونے پہ تنقید شروع ہو گئی ہے۔ ارے بھئی، تھوڑا حوصلہ کیجیے۔ تھوڑا سا انتظار کیجیے۔ جی جی، حکومت کو پانچ سال کا وقت تو دیں۔ جی، ایسا بالکل نہیں ہوگا کہ پانچ سال بعد حکومت ہرگز نہیں کہے گی کہ ’’ہمیں ایک موقع اور دیں کہ جاری منصوبوں کو مکمل کر سکیں۔‘‘ ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ برداشت، حوصلہ، صبر اگر آپ میں ہے، تو اس سے کام لیجیے، جو کہ آپ نہیں کرتے۔ بھئی، حد ہو گئی!

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔