قوموں کی زندگی میں ایسے دوراہے، حالات اور اوقات آتے رہتے ہیں جب ایک بہترین لیڈر کو منزل اور ہدف کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے وہ کٹھن مراحل سے گزرنے کے لیے اپنے آپ کو ہمہ وقت تیار رکھتا ہے۔ لیڈر دراصل وہی ہوتا ہے جسے مستقبل کی سنگینی کا اندازہ اور ادراک ہو۔ ایسے لیڈرز منزل کے تعین کے لیے دوستوں اور قریبی لوگوں سے مسلسل صلاح و مشورہ کرتے ہیں، منشور ترتیب دیتے ہیں اور ایک نظریہ کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اغراض اور مقاصد کو واضح کرتے ہیں۔ عوام کے ذہنوں کو تیار کرتے ہیں اور ان کے رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں۔ طے شدہ فیصلوں پر عمل پیرا ہونے کا طریقۂ کار وضع کرتے ہیں۔ مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے ممالک اور معروض کے ثابت شدہ تجربوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیڈرز ہمیشہ سوشل سائنس، پولیٹیکل سائنس اور فلسفہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اُس کے بعد کہیں جا کر کسی فیصلہ کن موڑ پر پہنچتے ہیں۔ ایسے لیڈرز کے فیصلے دوررس نتائج کے حامل ہوتے ہیں اور عوام اُن کو دیر تک یاد کرتے ہیں۔
قارئین،، میرا مطلب واضح ہے کہ جب کوئی لیڈر فیصلہ کرتا ہے، تو بسا اوقات وہ کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک نظریہ، پارٹی منشور، نظم اور جمہوری اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس غلط فیصلوں کی وجہ سے قوم تنزلی، خراب حالات، فاقہ کشی، افراتفری، کساد بازاری، غربت، شدید مالی بحران اور معاشی تنگ دستی کا شکار ہوجاتی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بُرا نہ ہوگا کہ ایک برے فیصلے کا اثر صدیوں تک باقی رہتا ہے۔ ہمیشہ دوراہے پر فیصلے عجلت میں نہیں بلکہ انتہائی صبر و اسقامت، فکر و تدبر اور بصیرت سے کیے جاتے ہیں۔
اس بات میں کوئی قباحت نہیں کہ جب کسی فیصلہ کے نتائج اچھے نہیں آ رہے ہوں، تو اُس میں ترمیم کیا جانا چاہیے، یا پھر اس سے دست بردار ہونا چاہیے۔ دوسری طرف لیڈر کے لیے پہلے سے کیے گئے اچھے فیصلوں کو ختم کرنا کسی طور بھی دانشمندی نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ اس اچھے یا برے فیصلے سے قوم اور ملک کا فائدہ یا نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اچھے فیصلے ہونے پر لیڈر کو صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے اور برے فیصلے یا نتائج آنے پر اس لیڈر کو تادمِ آخر اور بعد از مرگ بھی لوگ اچھے نام سے یاد کرنا گوارا نہیں کرتے۔
آج کل کی سیاست میں جب "لیڈر” اپنے ارادوں اور فیصلوں میں وقتاً فوقتاً تبدیلی کرتے ہیں، تو اس عمل کو اپنی خفت مٹانے کے لیے ایک اصطلاح "یوٹرن” رائج کر دی گئی ہے۔ اسی نئی اصطلاح کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ بیان سوشل میڈیا میں اس مصرعہ کی مانند شہرت حاصل کر گیا ہے کہ
بدنام اگر ہوں گے، تو کیا نام نہ ہوگا
وزیرِ اعظم اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جس کے بعد ایک اور بیاں کچھ یوں داغ دیا ہے کہ "یوٹرن لینے والا اگر کامیاب لیڈر نہیں ہوتا، تو یوٹرن نہ لینے والا بے وقوف ہوتا ہے۔ ہمیں ہٹلر اور نپولین سے سبق سیکھنا چاہیے۔”
میرے خیال میں اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جب معروضی حقائق تبدیل ہو جائیں، تو لیڈر بہتر قومی مفاد میں اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے۔ دوسرا بیان ان کا کچھ اس طرح ہے کہ "جیسے جھوٹ کا سہارا لے کر چوری کا مال بچانے کی کوشش کرنا بے ایمانوں کا شیوہ ہے، اسی طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یوٹرن کی آپشن استعمال کرنا عظیم قیادت کا طرۂ امتیاز ہے۔”
وزیر اعظم کے مؤخرالذکر بیان پر بات کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، وزیر اعظم صاحب کہنا چاہ رہے ہیں کہ جیسے جب کسی چوری کا مال چھپانے کے لیے جھوٹ بولا جانا بے ایمانی ہے، تو دوسری طرف نیک مقاصد کے حصول کے لیے "یوٹرن” لینا عظیم قیادت کی نشانی ہے۔
وزیراعظم صاحب بادی النظر میں کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں ایک اچھا لیڈر ہوں، کیوں کہ جب مجھے کسی فیصلے کے اچھے یا برے ہونے کا یقین اور نتائج کا پتا چلتا ہے، تو میں "یوٹرن” لے لیتا ہوں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عظیم لیڈر کو تاریخی حقائق اور معتبر فیصلے عظیم بناتے ہیں، نہ کہ "اپنے منھ میاں مٹھو” والی کہاوت کے مصداق اپنے گن خود گائے جائیں۔ ہاں، میری رائے ہوگی کہ ملکی ترقی کے لیے عمران خان صاحب کو حزبِ اختلاف کے ساتھ ملکی معیشت اور قومی و ملکی مفاد کے لیے میثاقِ معیشت پر ایک بڑا "یوٹرن” لینا چاہیے۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔