جب تیرہ سال کی تبلیغ و تلقین اور وعظ و نصیحت کے بعد حضور نبی کریمؐ نے اللہ کے حکم سے اپنا آبائی وطن چھوڑ کر مدینہ منورہ ہجرت کی اور مسلمان بھی ایک ایک کرکے اپنے وطن مالوف کو چھوڑ کر مدینے میں آکر جمع ہو گئے، تو اللہ تعالیٰ نے مدینے کے باشندوں اوس و خزرج کے دل ایمان و اسلام سے منور کیے۔ دونوں قبیلے دیرینہ دشمنی اور عداوت چھوڑ کر بھائی بھائی بن گئے۔ اللہ کے رسولؐ نے انصار و مہاجرین میں مواخاۃ کا رشتہ قائم کیا اور اس طرح مہاجرین کے لیے مدینے میں رہنے اور پُرامن زندگی گزارنے کے مواقع پیدا ہوگئے۔ یہ بے سر و سامان مہاجرین ابھی مدینے میں سانس بھی لینے نہ پائے تھے کہ مشرکین مکہ کو احساس ہوا کہ اگر ان لوگوں کو تھوڑا بھی امن و امان کا ماحول میسر آیا، تو یہ ایک مضبوط طاقت بن کر مکہ والوں کے تجارتی راستے کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ ویسے بھی اہلِ مکہ اس بات سے کہ ان کے رشتہ دار، عزیز و اقارب، بیٹے بیٹیاں اور میاں بیویاں مسلمان ہو کر آبائی دین کو چھوڑ کر ایک نئے دین میں شامل ہوئے تھے اور اہلِ مکہ کے خاندان کے خاندان انتشار و افتراق کا شکار ہوگئے تھے۔ انتہائی ملول، غمزدہ اور مشتعل تھے کہ ابو سفیان کے تجارتی قافلے کے بارے میں مسلمانوں کے حملے کی خبر سن کر ایک آن میں اس انتہائی فیصلے اور قدم اٹھانے پر تیار ہو گئے کہ اب موقع ہے کہ اس نئے دین کا قلع قمع کرکے قدیم عربی جا ہلیت کو بحال کیا جائے۔ وہ نہایت جو ش و خروش اور انتقامی جذبات سے مشتعل ہو کر ایک ہزار کی تعداد میں مدینے پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کو اپنی طاقت پر گھمنڈ اور غرور تھا اور وہ بجا طور پر سمجھتے تھیکہ مٹھی بھر بے سروسامان ، قلیل التعداد مسلمان ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ یوں وہ اپنے ارادوں اور عزائم میں کامیاب ہو جائیں گے۔
حضور نبی کریمؐ کو جب مشرکینِ مکہ کی لشکر کشی اور عزائم کے بارے میں معلوم ہوا، تو آپ نے ایک اولوالعزم مدبر اور صاحبِ حکمت قائد کی حیثیت سے حالات کے مطابق ایک دلیرانہ فیصلہ کیا کہ اب یہی وقت ہے کہ اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ حق کو یعنی اسلام کو باقی رہنا ہے یا کفر کو۔ اگر اس موقع پر کمزوری، بزدلی اور خوف کا اظہار ہوا، تو اسلام کو عرب معاشرے میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملے گا اور اسلام کے قدم عرب کی سرزمین سے اکھڑ جائیں گے۔ آپ نے فوری طور پر تیاری کی اور قلیل التعداد تین سو تیرہ افراد جو اسلحے اور ساز و سامان کے لحاظ سے بھی کمزور تھے اور بھوک، پیاس اور غربت کی وجہ سے بھی نخیف و نزار تھے، کو لے کر ایک ہزار کے لشکر جرار کے مقابلے کے لیے بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔ اس اولین غزوے اور کفرو اسلام کے معرکے کو قرآنِ عظیم الشان میں ’’الفرقان‘‘ کہا گیا ہے، یعنی حق و باطل کی تمیز اور فرق کا معرکہ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نہتے مسلمانوں کی تائید و مدد فرمائی اور قلیل تعداد والے کثیر تعداد کے ایک ہزار لشکر پر غالب آگئے۔ ان کے ستر (70) سر کردہ سردار مارے گئے اور ستر (70) آدمی قیدی بنے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتحِ مبین عطا فرمائی۔
قارئین، قوموں کی زندگی میں یہ مواقع آتے ہیں کہ ان کو باقی رہنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانی ہے یا خوف و بزدلی کے مارے دبک کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کمزور، بے وقار اور غلام بن کے رہنا ہے؟ اولوالعزم قائدین ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور تاریخ میں اپنی بقا کے لیے جدو جہد اور قربانیوں کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ آپ قیامِ پاکستان اور تقسیمِ ہند کے وقت اگر حالات کا جائزہ لیں، تو آپ کو قائد اعظم محمد علی جناح ایسے ہی حالات کے نبض شناس اور موقع سے فائدہ اٹھانے والے قائد کے روپ میں نظر آئیں گے۔ جنگِ عظیم دوم کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی کمزوری، اکثریتی فرقے ہندو کے ہاتھ میں اقتدار کی باگیں نہ ہونے سے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کے حصول کا یہ ایک بہترین موقع تھا۔ اگر اس وقت قائد اعظم جیسا بیدار مغز حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا قائد نہ ہوتا، تو شاید کوئی دوسرا اس بہترین موقع کو ضائع کر تا اور مسلم ملت ہمیشہ کے لیے ہندوو ٔں کی غلامی میں گرفتار ہو جاتی۔
آپ دیکھتے ہیں کہ قومیں اپنی خود مختاری، سالمیت اور بقا کے لیے بہت حساس ہوتی ہیں۔ جب ان کی قومی خودمختاری اور بقا کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، تو پھر وہ سب کچھ کر گزرتی ہیں جو اُن کے بس میں ہوتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں ترکی کے طیب اردوان نے اس کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ جب روس جیسی طاقت کے طیارے نے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، تو اس نے اس کو مار گرایا اور اپنی خود مختاری کی خاطر ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوگیا۔ ہمارے ساتھ بھی قیامِ پاکستان سے اب تک قومی خود مختاری کا مسئلہ چمٹا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو دنیا کی ایک بڑی طاقت امریکہ کی گود میں ڈال دیا ہے۔ نام نہاد امدادی قرضوں کے عوض ہم اپنی قومی خود مختاری کھو بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے اندر کوئی بھی فیصلہ، قانون سازی اس کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے۔ ہمارے حکمران بدعنوان، ذہنی و فکری طور پر غلام اور اقتدار و کرسی کے بھوکے ہیں۔ وہ خود اپنی قوم کو امریکی اور یورپی طاقتوں سے ڈراتے ہیں کہ اگر امریکہ نے تربیلا ڈیم پر ایک بھی بم گرایا، تو ہمارا کیا حشر ہوگا؟
لیکن البتہ ایک بات سے ذرا اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ ہماری کچھ سیاسی و عسکری شخصیتوں نے ملکی دفاع کے لیے ایٹم بم اور جد ید ترین میزائل سسٹم بنایا۔ سات آٹھ لاکھ فوج کی تشکیل کی۔ دفاعی اسلحے میں خود کفالت حاصل کی، لیکن آج تک آپ اس ہندو کو اپنا کھلا دشمن ڈکلیئر نہیں کر سکے جو ہمارا واضح اور کھلا دشمن ہے۔ اس نے سازش اور جنگ کے ذریعے ہمارے اکثریتی صوبے کو ہم سے الگ کیا اور کسی بھی موقع پر اس نے اپنی دشمنی اور عداوت کے جذبے کو پوشیدہ نہیں رکھا، لیکن ہم اقتدار کے چھن جانے کے خوف سے اس سے تجارتی تعلقات قائم کرتے ہیں۔ پیاز، ٹماٹر اور سبزیاں اس سے در آمد کرتے ہیں۔اگر ایک طرف وہ سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے ہمارے شہریوں کو قتل کرتا ہے، تو دوسری طرف سے اپنی سرحدوں پر کاروبار بھی جاری ہے اور اس کی وجہ سے ہماری اپنی انڈسٹری اور زراعت بحران اور نقصان کا شکار ہے۔
قارئین، قیادت کا سب سے اولین فریضہ قومی خود مختاری قائم کرنا ہے کہ ہم ایک آزاد، خود مختار اور باعزت و باوقار قوم ہیں۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم، نظامِ قانون اور عقائد و رسوم میں کسی بھی قوم کی مداخلت گوارا نہیں، لیکن چوں کہ ہماری قومی قیادت ان کے اداروں کی تربیت یافتہ، ان کے ذہن و فکر سے سوچنے والے اور ان کی آنکھوں سے دیکھنے اور سننے والے ہیں، لہٰذا ان کو اپنی انفرادیت، اپنے تشخص اور اپنی پہچان کا شعور و ادراک نہیں۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔