پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دو ایسی جاعتیں تھیں، جنہوں نے پاکستان کے پارلیمانی نظام کو دو سیاستی جماعتوں کا نظام بنا دیا تھا۔ اس میں نہ تو کسی کو شک ہو سکتا ہے نہ یہ کوئی پوشیدہ راز ہی ہے۔ باقی تمام سیاسی پارٹیاں ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو حکومت و اپوزیشن کرنے میں مددگار ہی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ درمیان میں ایک مدت ق لیگ نے مکمل کی، لیکن وہ بھی ن لیگ کا ہی ایک ٹوٹا ہوا تارا تھی جو تھپکی سے چمک اُٹھی اور آج وفاق اور صوبۂ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی کی صورت میں لشکارے مار رہی ہے۔لہٰذا جب پاکستان تحریک انصاف نے نعرہ تبدیلی کا لگایا، تو عوام کا جمِ غفیر اس پارٹی کی جانب ٹوٹ پڑا۔ پہلے اس پارٹی کی بھی ناکامی کی وجوہات یہی رہیں کہ یہ دونوں بڑی پارٹیوں کے ساتھ ہی منسلک رہی اور اپنا وجود واضح نہیں کرنا چاہا، لیکن اب جب انہوں نے چاہا، تو عوام نے بھی کھڑکی توڑ ردعمل دیا اور آج پاکستان تحریک انصاف کی وفاق، پنجاب اورخیبر پختونخوا میں مکمل حکومت، بلوچستان میں ملا جلا رجحان اور صوبہ سندھ میں دوسری بڑی جماعت ہے اور تبدیلی کا نعرہ پوری آب و تاب سے گونج رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو چاہیے تو یہ تھا کہ جس قدر شدت ان کے نعروں میں تھی، اتنی ہی شدت ان کے عمل میں بھی نظر آتی، لیکن ایک موقع مانگتے مانگتے وہ کسی بھی طرح کی حکمت عملی شاید بنانے کی طرف توجہ نہیں دے پائی یا اسے امید ہی نہیں تھی کہ موقع مل جائے گا۔ کرسیِ اقتدار کنٹینر سے یکسر مختلف ہے، ورنہ شاید یہاں بھی صرف نعروں سے کام چل جاتا۔ لیکن جب اقتدار کا طوق گلے میں ڈال لیا، تو معلوم ہوا کہ خزانہ خالی ہو، تو اسے بھرا کیسے جائے گا؟ کچھ معلوم نہیں۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہو، تو ان میں اضافہ کیسے ممکن ہوگا؟ کوئی پالیسی نہیں بنائی تھی۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف بطورِ اپوزیشن جو گرجنا تھا، حکومت میں آکے توازن قائم کیسے رکھ پائیں گے؟ کوئی جانتا ہی نہیں۔ قرض لینے کے جو طعنے اپوزیشن سے دیے جاتے تھے، خود اقتدار میں آکے اُن سے کیسے بچنا ہے؟ کسی نے سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ لاکھوں گھروں کا وعدہ انتخابی مہم میں تو کر لیا لیکن عملی طور پر اس منصوبے کے خدوخال کیسے ہوں گے؟ ابھی تک چوں چوں کا مربہ ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، بہت اچھا وعدہ تھا، کر بھی لیا آپ نے لیکن اس وعدے کی تکمیل کیسے ممکن ہو گی؟ کہ جب پہلے ہی ادارے نقصان میں ہیں، کسی نے اس مسئلہ کو درد سر بنایا ہی نہیں۔ تعلیمی نظام جسے ہماری غلط پالیسیاں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اُسے ہر پاکستانی کو مفت دینے کا آپ کا جذبہ یقینا قابلِ دید لیکن یہ ہو گا کیسے؟ کسی کو نہیں معلوم۔ مواصلات کا نظام اصلاحات کا طالب ہے، بالکل درست! لیکن اس میں اصلاحات آ کیسے سکتی ہیں؟ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس پہ کبھی غور ہی نہیں کیا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور کسان طبقہ ہی پس رہا ہے، اکثر اپوزیشن کے دِنوں میں آپ کے نعروں کی گونج میں سنا، لیکن آپ اقتدار میں آکے کسانوں کو کیسے مراعات دیں گے؟ اس بارے میں فی الحال اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ دیکھیں جی، ڈالر کی قیمت دن بدن بڑھ رہی ہے، یہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آپ اپوزیشن کے دنوں میں یہ بات دُہراتے تھے، لیکن آپ اقتدار میں آکے ڈالر کو لگام کس طرح ڈالیں گے؟ کسی انتخابی جلسے میں بتایا نہ اس وقت آپ کے پاس ایسی کوئی پالیسی ہی نظر آ رہی ہے۔
مقصد تنقید تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا، لیکن حکومتِ وقت سے اتنی سی گزارش تو کی جاسکتی ہے کہ ہر روز پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، سونے کی فی تولہ بلند ہوتی قیمت، خزانہ کے ذخائر میں بتدریج آتی کمی، سعودی عرب سے ملنے والی امداد کی نہ نظر آنے والی شرائط، چین کا بظاہر کامیاب دورہ مگر مشترکہ اعلامیے سے چھے ارب ڈالر کا ذکر گول مول ہوجانا، ملک میں بڑھتی بیروزگاری، سیاسی ابتری وغیرہ جیسے معاملات چلئے درست نہ ہوں، لیکن اس معاملے میں پالیسی تو واضح کیجیے کہ کیا ہے آپ کی؟ سوائے وزیر داخلہ کے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے پوری حکومتی مشینری کہاں ہے؟ اور ابھی موسمِ سرما کامکمل آغاز بھی ہوا اور وفاقی وزیر پٹرولیم کا کہنا کہ صاحبو، لوڈ شیڈنگ تو ہوگی۔ کیا یہ دوغلا معیار نہیں کہ آپ نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کچھ اور کہا اور حکومت ملتے ہی آپ کا لہجہ بھی بدل گیا اور عمل بھی؟ سمجھے گئے ہم، کہ مشکلات بھی یقینا ہیں، لیکن کیا مشکلات سے نکلنے کی تدابیر کی بجائے صرف ملبہ دوسروں پہ پانچ سال آپ بھی گراتے رہیں گے؟ اگر ایسا ہی ہے تو یہ کون سی تبدیلی ہے؟ـ پہلے بھی تو یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔
قومیں گھاس کھانے کے نعرے پہ اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے نعرے میں سچائی ہے، لیکن آپ نے یہ کیسا تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے کہ عوام کو فرق ہی محسوس نہیں ہو رہا پہلوں میں اور آپ میں۔ عوام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ تعاون رضاکارانہ کریں اور ساتھ آپ ان کی جیبوں پہ بوجھ بھی بڑھاتے جائیں۔ یہی تبدیلی کا معیار ہے؟
جناب والا! کچھ نیا کیجیے۔ عوام مشکلات میں آپ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، وہ آپ سے توقع کر رہے ہیں کہ آپ ان کی مشکلات کا ازالہ کریں گے۔ آپ نے اُلٹا اپنی مشکلات انہیں گنوانا شروع کر دی ہیں۔ حکومت جو بھی کر کے جاتی ہے اسے پھولوں کی سیج نہیں بنا کے جاتی، لیکن آپ کچھ نیا کر دیجیے کہ کل آپ اقتدار میں نہ بھی رہیں، تو نئے آنے والے آپ کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکیں۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔