میں نے پیچھے دیکھا، تو جیسے میری جان نکل گئی۔ کیوں کہ ایک سیاہ فام آدمی نشے میں دُھت کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے پانچ ڈالر مانگے اور میں نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ ڈالر دے کر تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے رفو چکر ہوا۔ کچھ دیر تک میں پیچھے دیکھتا رہا کہ کہیں وہ پیچھا تو نہیں کر رہا، مگر خوش قسمتی سے وہاں کوئی نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر میں، مَیں’’ورلڈ وار ٹو یادگار‘‘ (World War II Memorial) کے عقب میں کھڑا تھا، جہاں اس آدھی رات کو بھی چند لوگ موجود تھے۔ یہ یادگار امریکہ کے ان سولہ ملین شہریوں کی عزت و احترام میں بنائی گئی ہے، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی فوجوں کو کسی نہ کسی شکل میں سپورٹ کیا۔ یہ یادگار امریکیوں کے جذبہ، قربانی اور فتح کی نشان دہی کرتی ہے۔ یہاں آدھی چاند کی مانند گرینائٹ سے بنے 56 ستون بنائے گئے ہیں جو امریکہ کی تمام ریاستوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس کے درمیان میں ایک دیوار پر سنہری رنگ کے تقریباً چارہزار ستارے لگائے گئے ہیں، جو ایک طرح سے دوسری جنگِ عظیم میں اپنے ملک کے لیے قربانی دینے والے چار لاکھ امریکیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہیں۔

ورلڈ وار ٹو یادگار کا ایک دلکش منظر (Photo: besthdwallpaper.com)

اس کے علاوہ یادگار میں میموریل پلازہ کے علاوہ دو فاتح پویلین بھی بنائے گئے ہیں، جو اٹلانٹک اور پیسفک کے ناموں سے موسوم کیے گئے ہیں۔ جب کہ یادگار کے عین وسط میں پانی کا گول فوارہ بھی ہے، جویہاں کے ماحول کو ترو تازہ رکھتا ہے۔ میں نے جب یادگار کے مختلف حصوں کو غور سے دیکھا اور پڑھا، تومحسوس کیا کہ آدھی رات سے زیادہ وقت گزر گیا ہے۔ مجھے اپنے ہوٹل واپس بھی جانا تھا۔ مَیں آہستہ آہستہ لنکن میموریل کی طرف بڑھا اور تقریباً ایک گھنٹا میں ہوٹل پہنچا اور سو گیا۔
27 جون کو ہم سب صبح سویرے اٹھے اور نیچے ناشتے کے لیے آئے۔ حلال اور حرام کے مسئلے کی وجہ سے ہمارا ناشتہ ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں نہیں لگایا جاتا بلکہ ہوٹل کے ایک کونے میں چھوٹے سے ہال میں ہمارے لیے اہتمام کیا گیا تھا جس میں اُبلے آلو، انڈا، جیم اور ڈبل روٹی کے علاوہ چائے اور کافی کا بھی اہتمام تھا۔ چوں کہ ہم پاکستانی ناشتے کے عادی ہیں، اور یہ تمام چیزیں مغربی انداز سے تیاری کی گئی تھیں، اس لیے زیادہ تر فیلوز ناخوش تھے۔ بعض نے تو یہ کہہ دیا کہ خود دیسی ناشتہ تیار کیا کریں گے، مگر آنے والے دنوں میں کسی نے ایسا نہیں کیا بلکہ اُسی مغربی ناشتے پر ہی اکتفا کیا۔ ناشتے کے بعد سب فیلوز اپنے کمروں میں گئے اور تیار ہو کر نیچے لابی میں آئے، تو سب اپنے بہترین لباس میں تھے۔ کیوں کہ پروگرام میں ہمارا پہلا دن تھا اور ہمیں ’’آئی سی ایف جے‘‘ کے آفس تعارفی سیشن کے لیے جانا تھا، جس کے لیے ’’تابیتا‘‘ پہلے ہی سے لابی میں موجو دتھی۔ میں نے شلوار قمیص اور واسکٹ پہن رکھا تھا، تاکہ امریکیوں کو پاکستانی ہونے کا بھرپور تاثر دوں، جب کہ باقی مرد ’’تھری پیس‘‘ میں ملبوس دکھائی دیے۔ خواتین کے خوش نما رنگوں سے بھرپور لباس دیکھنے کے لائق تھے۔ ان میں بعض نے تو اپنے صوبے کا روایتی لباس پہنا تھا جب کہ بعض نے شادی بیا ہ میں پہنا جانے والا شوخ رنگوں کا ڈھیلا ڈھالا لباس زیبِ تن کیا ہوا تھا، تاہم چند لڑکیوں نے مغر بی لباس کو ترجیح دے رکھی تھی اور مختصر لبا س میں ملبوس تھیں، جن میں فاطمہ نیا زی صاحبہ بھی تھیں۔ اِک آدھ خاتون کے لباس پر تو پھولوں کی کڑھائی ایسی تھی کہ ان کا لباس گویا کسی باغیچے کی تصویر پیش کررہا تھا۔

آئی سی ایف جے کے دفتر میں راقم کی ایک یادگاری تصویر۔

ہم پیدل ’’آئی سی ایف جے‘‘ کے آفس گئے، جو تقریباً دس منٹ کے فاصلے پر تھا۔ جب ہم 22 بندے رنگ برنگے شوخ ملبوسات میں تابیتا کی رہنمائی میں پیدل جار ہے تھے، تو سڑک پر موجود امریکیوں کے علاوہ گاڑیوں میں چلتے ہوئے لوگوں کی نظریں بھی ہم پر جم جاتیں۔ ہم تین ’’زیبرا کراسنگ‘‘ کے بعد ’’آئی سی ایف جے آفس‘‘ پہنچ کر ایک ہال میں گئے، جہاں زینب امام جو اس پروگرام کی منیجر ہیں، سے ملے۔ میں زینب امام کو سال 2014ء سے جانتا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے ’’دی ایکسپریس ٹربیون‘‘ اخبار کو بحیثیتِ رپورٹر جوائن کیا تھا، تو وہ مذکورہ اخبار میں سب ایڈیٹر تھیں اور ان سے فون پر مختلف نیو ز سٹوریز کے حوالے سے بات چیت ہوا کرتی تھی۔ اُن دنوں ٹربیون اخبار کا تمام عملہ انتہائی پیشہ ور اور خوش اخلاق تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار میری ایک نیوز سٹوری کو ٹربیون ہی کی طرف سے بہترین سٹوری کا انعام ملا تھا، جس کی خوشخبری مجھے زینب نے ہی دی تھی۔ مذکورہ سٹوری کو زینب ہی نے ایڈٹ کیا تھا۔
یہ ہمارا پہلا تعارفی سیشن تھا، جس میں ہماری زینب کے علاوہ ’’لوری کی‘‘ جو پروگرام آفیسر تھی، سے بھی ملاقات ہوئی۔ ہم 22 فیلوز نے اپنا تعارف کرایا۔ اس کے بعد ’’آئی سی ایف جے نائٹ انٹرنیشنل جرنلزم فیلو شپ‘‘ کی ڈپٹی ڈائریکٹر ’’سارا اولستاد‘‘ سے ملاقات ہوئی، جنہوں ہمیں اسی ’’فیلو شپ‘‘ کے بارے میں بریف کیا۔ اس دن کا ہمارا تیسرا سیشن ’’آئی سی ایف جے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اِن نیوز روم سروے‘‘ کی ریسرچ اینڈ پروپوزل منیجر فاطمہ باجا کے ساتھ تھا۔ اس کے بعد ہماری ملاقات ’’سٹیٹ ڈپارٹمنٹ‘‘ کے اہلکاروں سے ہوئی جن سے خوشگوار ماحول میں گپ شپ لگی، مگر چند فیلوز نے طالبان اور دہشت گردی کے حوالے سے نامناسب سوالات بھی اٹھائے، جن سے ماحول کسی حد تک پھیکا پڑگیا، مگر بہرحال ملاقات اچھی رہی۔ ہم نے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے ساتھ گروپ تصویر بھی بنائی۔ گروپ تصاویر میرے ہی کیمرے سے بنائے گئے۔ اس وقت میں نے سوچا کہ شکر ہے کہ کیمرہ ساتھ ہے، ورنہ یہ لوگ کیا کرتے؟

تمام فیلوز آئی سی ایف جے کے تعارفی سیشن میں اپنی اپنی نشست پر براجمان ہیں۔ (فوٹو: فضل خالق)

دوپہر کے کھانے پر ہماری ملاقات ’’آئی سی ایف جے‘‘ کی کمیونی کیشن ٹیم کے سا تھ ہوئی، جن میں کمیونی کیشن ڈائریکٹر ’’ارین سٹاک‘‘ اور کمیونی کیشن ایسوسی ایٹ ’’ناومی ہیریس ‘‘ شامل تھے۔ اس کے بعد سب سے اہم سیشن پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر تھا، جس کو پاک امریکہ تعلقات، ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں پیش کیا گیا۔ اس سیشن کے ماہرین میں مدیحہ افضل، مائیکل کوگل مین اور معید یوسف تھے۔ سیشن میں پاک امریکہ تعلقات کی موجود ہ صورتحال پر بحث کی گئی اور پاکستان کے الیکشن کے نتائج پر بھی بات چیت ہوئی۔ امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی بھی زیرِ بحث آئی اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد امریکہ کے دورے کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ اس دن کے تمام سیشن مفید تھے، تاہم مجھے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا سیشن انتہائی اہم اور مفید لگا۔ دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں تعلقات کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی اور تجاویز سامنے آئیں۔ ہم نے اس پینل کے ماہرین کے ساتھ بھی گروپ تصویر بنائی جس کے لیے بھی میرا ہی کیمرہ استعمال ہوا۔

آئی سی ایف جے کے دفتر میں پینل کے ماہرین کے ساتھ نشست کے بعد لی جانے والی تصویر۔

اس دن فیلوز نے اپنے ساتھ لائے گئے روایاتی سووینیر ’’آئی سی ایف جے‘‘ کے عملے اور دوسرے لوگوں کو پیش کیے۔ (جاری ہے)

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔